حضوری کیا ہوتی ہے ؟

یہ واقعہ پیر مہر علی شاہؓ صاحب کے پوتےحضرت پیر نصیر الدین نصیر سے سنا ھے اور کچھ کتابوں میں بھی پڑھا ھے واللہ اعلم۔
کلیام کے ایک مشہور عارف حضرت میاں خواجہ فضل الدین شاہ کلیامی چشتی صابری ظاہری طور پر نماز نہیں پڑھتے تھے تو فقہ کے مطابق ایسے بندے کی نماز جنازہ نہیں ہوتی لہذٰا ان کی نماز جنازہ رکھ دی گئی قریب کے علاقوں کے علماء خچر پر کتابیں لاد کر لائے تھے کہ وہاں جو ان کی نماز پڑھے گا میں اس پر فقہ کا فتوی صادر کروں گا پیر مہر علی شاہ چلے گئے
میاں فضل الدین نے کہا میں بدعتی ہوں میں ساز سنتا ہوں میں آواز سنتا ہوں میں چشتی نظامی صابری ہوں زیادہ سے زیادہ مشرک ہوں یہ تو فیصلہ میرا مالک کرے گا جب میں مروں گا تو میری قبر میں گھس کر سارنگی بجانا۔ سارنگی بجائی گئی اور کہا میرا جنازہ کوئی نہ پڑھے۔ خلیفہ نے عرض کیا کہ مفتی صاحب نے تو فتویٰ دے دیا ہے کہ اس کی نماز جنازہ نہیں ہو سکتی۔ فرمایا مجھے غسل دے کر کفن پہنا کر رکھ دینا ایک شاہ سوار آئے گا وہ جنازہ پڑھائے گا۔ اب پتہ نہیں شاہ سوار کون ہے
پیر مہر علی شاہ گھوڑے پر بیٹھے کلیام پہنچ گئے پیر صاحب کہتے ہیں کہ مخلوق کھڑی تھی مولوی صاحب کہتے ہیں ایک بندہ بھی نماز نہیں پڑھے گا۔ بابا صاحب نے فرمایا تم ایک بندے کی بات کرتے ہو میرے جنازے میں دہلی کےلوگ بھی شامل ہوں گے اب دہلی کے لوگ کہاں سے آئیں تو پتہ چلا اس وقت قافلے چلتے تھے قافلہ آیا پشاور جا رہا تھا وہ بھی شامل ہو گئے اتنی مخلوق تھی کہ پیر صاحب نے گھوڑے پر سوار ہو کر صفیں سیدھی کرائیں۔ اور انہوں نے وہاں کھڑے ہو کر فرمایا جس کو علم کا دعویٰ ہے جس کو میاں فضل الدین کے ایمان میں شک ہے وہ مناظرے کے میدان میں اترے کوئی نہیں اترا پھر آپ نے ہی جنازہ پڑھایا۔۔
میاں فضل الدین نے کہا میں بدعتی ہوں میں ساز سنتا ہوں میں آواز سنتا ہوں میں چشتی نظامی صابری ہوں زیادہ سے زیادہ مشرک ہوں یہ تو فیصلہ میرا مالک کرے گا جب میں مروں گا تو میری قبر میں گھس کر سارنگی بجانا۔ سارنگی بجائی گئی اور کہا میرا جنازہ کوئی نہ پڑھے۔ خلیفہ نے عرض کیا کہ مفتی صاحب نے تو فتویٰ دے دیا ہے کہ اس کی نماز جنازہ نہیں ہو سکتی۔ فرمایا مجھے غسل دے کر کفن پہنا کر رکھ دینا ایک شاہ سوار آئے گا وہ جنازہ پڑھائے گا۔ اب پتہ نہیں شاہ سوار کون ہے
پیر مہر علی شاہ گھوڑے پر بیٹھے کلیام پہنچ گئے پیر صاحب کہتے ہیں کہ مخلوق کھڑی تھی مولوی صاحب کہتے ہیں ایک بندہ بھی نماز نہیں پڑھے گا۔ بابا صاحب نے فرمایا تم ایک بندے کی بات کرتے ہو میرے جنازے میں دہلی کےلوگ بھی شامل ہوں گے اب دہلی کے لوگ کہاں سے آئیں تو پتہ چلا اس وقت قافلے چلتے تھے قافلہ آیا پشاور جا رہا تھا وہ بھی شامل ہو گئے اتنی مخلوق تھی کہ پیر صاحب نے گھوڑے پر سوار ہو کر صفیں سیدھی کرائیں۔ اور انہوں نے وہاں کھڑے ہو کر فرمایا جس کو علم کا دعویٰ ہے جس کو میاں فضل الدین کے ایمان میں شک ہے وہ مناظرے کے میدان میں اترے کوئی نہیں اترا پھر آپ نے ہی جنازہ پڑھایا۔۔
تو بابا فضل چشتی صابری پر اعتراض کیا حضرت خواجہ اللہ بخش تونسویؒ نے جو حضرت پیر پٹھان تونسوی ؓ کے پوتے ہیں میاں صاحب ان سے عمر میں بڑھے تھے۔ پاک پتن شریف وہ بھی حاضر ہوتے تھےاور میاں صاحب بھی۔ پاکپتن بہت مشائخ آئے ہوئے تھے۔
وہی اللہ بخش تونسوی صاحب بہت سخت تھے بڑے بڑے مشائخ کو نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے بہت پٹوایا پیر صاحب نے کہا کہ کلیام والےبابا بھی آئے ہیں وہ مسجد میں نہیں آئے سب کانپ گئے کہ اب پٹوائیں گے۔ فرمایا دیکھو بابا آئے ہیں مسجد میں لوگوں نے کہا نہیں آئےہیں تو کہا کہ پیغام دو کہ اگلی نماز میں نہ آئے تو پٹوائوں گا۔ دہلی کے مشائخ کو ماراکہ نماز کیوں نہیں پڑھتے۔ لیکن اس دفعہ عارف کے ہاتھ چڑھ گئے وہ مشائخ تو اور قسم کے تھے لیکن میاں فضل الدین تو درد کا سمندر اور سرمایا تھے
وہی اللہ بخش تونسوی صاحب بہت سخت تھے بڑے بڑے مشائخ کو نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے بہت پٹوایا پیر صاحب نے کہا کہ کلیام والےبابا بھی آئے ہیں وہ مسجد میں نہیں آئے سب کانپ گئے کہ اب پٹوائیں گے۔ فرمایا دیکھو بابا آئے ہیں مسجد میں لوگوں نے کہا نہیں آئےہیں تو کہا کہ پیغام دو کہ اگلی نماز میں نہ آئے تو پٹوائوں گا۔ دہلی کے مشائخ کو ماراکہ نماز کیوں نہیں پڑھتے۔ لیکن اس دفعہ عارف کے ہاتھ چڑھ گئے وہ مشائخ تو اور قسم کے تھے لیکن میاں فضل الدین تو درد کا سمندر اور سرمایا تھے
پیر مہر علی صاحب فرماتے ہیں کہ جو وجد کے منکر ہیں اگر پاک پتن کا دروازہ گزرتے ہوئے میرے پاس ہوتے تو میں بتاتا کہ جب فضل الدین کلیامی کی پالکی گزرتی تھی تو ان کےانگ انگ سے ذکر ذات اور ہو ہو کی آواز میں سنتا تھا یہ وہ فضل الدین کلیامی ہیں۔۔ یہ وہ ہیں کہ جب پیر مہر علی شاہ کی گاڑی کلیام شریف کےپاس سے گزری توآپ نے فرمایا گاڑی کی کھڑکی کھولو ذرا درد کی ہوا آئے۔۔۔۔ تو عصر کے وقت دیکھا نہیں آئے تو پھر پیغام پہنچایا کہ مغرب کے وقت نہ آئے تو خود پیٹ کر لائوں گا بابا ٹس سےمس نہ ہوئے۔۔ عشاء کا ٹائم ہوا تو خواجہ صاحب دیکھتے رہے سب حاضر ہیں لیکن میاں صاحب نہیں ہیں بہت غصہ آیا کہ نماز کی بعد اب ماروں گا۔ لیکن جب خواجہ اللہ بخش نے سلام پھیرا تو دائیں طرف بھی میاں صاحب صف میں بیٹھے ہوئے ہیں اور بائیں طرف پھیراتو اس طرف بھی بیٹھے ہیں۔ خواجہ اللہ بخش کانپ کہ میں تو دہلی والے پیر سمجھ کر ہاتھ ڈال دیا یہ کوئی اور ہی بندہ ہےجب ڈیرے پرپہنچے اللہ بخش خود اٹھ کر فضل الدین کلیامی جو کہ صابر صاحب کے حجرے کے باہر مٹی پر پڑے کیا کہہ رہے تھے
لابٹھایا تیرے کوچے میں خدا نے ہم کو
نہ اٹھے حشر بھی آئے جوآٹھانے ہم کو
نہ اٹھے حشر بھی آئے جوآٹھانے ہم کو
اللہ بخش صاحب حاضر ہوئے اور کہنے لگے سائیں میں معذرت کرتا ہوں میں بھولا ہوا تھا اور اللہ کی ذات میں فنا فضل الدین کلیامی نے آنکھ اٹھائی کہنے لگے اللہ بخش تیرےدادا کا مجھے لحاظ ہے نہیں تومیں تمہیں وہ ناچ نچائوں کہ دنیا دیکھے کہ تم نے ہاتھ کس کو ڈالا ہے پھر ایک جملہ فرمایا اللہ بخش چپ۔۔ فرمایا اللہ بخش کچھ ایسے بی نمازی ہیں دنیا میں جو اللہ کی حضوری کی صف میں پہلی صف میں بیٹھتے ہیں اور کچھ ایسے نمازی ہیں جن کی آخری صف میں بھی جگہ نہیں ہوتی جوتوں میں بھی جگہ نہیں ملتی ہے
جو معزور ہو جاتے ہیں جلوہ ذات میں فنا ہو کر اس انتہائی منزل پر پہنچ کر ان وجوہات کی وجہ سےشریعت معاف کر دے کہ تم تو کھو چکے ہو اور جو اپنی عقل سے اواوپر ہو جائے اس کو شریعت بھی پابند نہیں کرتی یہ چند لوگوں کامقام ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ ہم مسجد جانا چھوڑ دیں۔لیکن اگر کووئی فضل الدین کلیامی جیسا آدمی نہ جا سکے تو کچھ منزل ہوتی ہے۔ اس واقعہ سے مراد ہرگز نہیں کے ہم نماز پڑھنا چھوڑ دیں۔
واللہ اعلم۔
واللہ اعلم۔
Comments
Post a Comment