سرکار غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی کرامات
سرکارِ، بغداد حضورِ غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ: ''جب میں علم دین حاصل کرنے کے لئے جیلان سے بغداد قافلے کے ہمراہ روانہ ہوا اور جب ہمدان سے آگے پہنچے تو ساٹھ ڈاکو قافلے پر ٹوٹ پڑے اور سارا قافلہ لوٹ لیا لیکن کسی نے مجھ سے تعرض نہ کیا، ایک ڈاکو میرے پاس آکر پوچھنے لگا اے لڑکے! تمہارے پاس بھی کچھ ہے؟ میں نے جواب میں کہا: ''ہاں.'' ڈاکو نے کہا: ''کیا ہے ؟'' میں نے کہا: ''چالیس دینار.'' اس نے پوچھا: ''کہاں ہیں؟'' میں نے کہا: ''گدڑی کے نیچے.''🔹ڈاکو اس راست گوئی کو مذاق تصور کرتا ہوا چلا گیا، اس کے بعد دوسرا ڈاکو آیا اور اس نے بھی اسی طرح کے سوالات کئے اور میں نے یہی جوابات اس کو بھی دیئے اور وہ بھی اسی طرح مذاق سمجھتے ہوئے چلتا بنا، جب سب ڈاکو اپنے سردار کے پاس جمع ہوئے تو انہوں نے اپنے سردار کو میرے بارے میں بتایا تو مجھے وہاں بلا لیا گیا، وہ مال کی تقسیم کرنے میں مصروف تھے.
🔹ڈاکوؤں کا سردار مجھ سے مخاطب ہوا: ''تمہارے پاس کیا ہے؟ میں نے کہا: چالیس دینار ہیں، ڈاکوؤں کے سردار نے ڈاکوؤں کو حکم دیتے ہوئے کہا: ''اس کی تلاشی لو.'' تلاشی لینے پر جب سچائی کا اظہار ہوا تو اس نے تعجب سے سوال کیا کہ: ''تمہیں سچ بولنے پر کس چیز نے آمادہ کیا؟'' میں نے کہا: ''والدہ ماجدہ کی نصیحت نے.'' سردار بولا: ''وہ نصیحت کیا ہے؟'' میں نے کہا: ''میری والدہ محترمہ نے مجھے ہمیشہ سچ بولنے کی تلقین فرمائی تھی اور میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ سچ بولوں گا.'' تو ڈاکوؤں کا سردار رو کر کہنے لگا: ''یہ بچہ اپنی ماں سے کئے ہوئے وعدہ سے منحرف نہیں ہوا اور میں نے ساری عمر اپنے رب عزوجل سے کئے ہوئے وعدہ کے خلاف گزار دی ہے.'' اسی وقت وہ ان ساٹھ ڈاکوؤں سمیت میرے ہاتھ پر تائب ہوا اور قافلہ کا لوٹا ہوا مال واپس کر دیا.''
(بہجة الاسرار، ذکر طریقه رحمة اللہ تعالٰی علیه، ص۱۶۸)
(بہجة الاسرار، ذکر طریقه رحمة اللہ تعالٰی علیه، ص۱۶۸)
سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ مدینہ منورہ سے حاضری دے کر ننگے پاؤں بغداد شریف کی طرف آرہے تھے کہ راستہ میں ایک چور کھڑا کسی مسافر کا انتظار کر رہا تھا کہ اس کو لوٹ لے، آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ جب اس کے قریب پہنچے تو پوچھا: ''تم کون ہو؟'' اس نے جواب دیا کہ ''دیہاتی ہوں.'' مگرآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کشف کے ذریعے اس کی معصیت اور بد کرداری کو لکھا ہوا دیکھ لیا اور اس چور کے دل میں خیال آیا: ''شاید یہ غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ہیں'' آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو اس کے دل میں پیدا ہونے والے خیال کا علم ہوگیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: ''میں عبدالقادر ہوں.'' تو وہ چور سنتے ہی فوراً آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے مبارک قدموں پر گر پڑا اور اس کی زبان پر یَا سَیِّدِیْ عَبْدَالْقَادِرِ شَیْئًا للہِ (یعنی اے میرے سردار عبدالقادر میرے حال پر رحم فرمائیے) جاری ہوگیا.'' آپ کو اس کی حالت پر رحم آگیا اور اس کی اصلاح کے لئے بارگاہ الٰہی عزوجل میں متوجہ ہوئے تو غیب سے ندا آئی: ''اے غوث اعظم! اس چور کو سیدھا راستہ دکھا دو اور ہدایت کی طرف رہنمائی فرماتے ہوئے اسے قطب بنا دو.'' چنانچہ آپ کی نگاہ فیض رساں سے وہ قطبیت کے درجہ پر فائز ہوگیا.''
(سیرت غوث الثقلین، ص۱۳۰)
(سیرت غوث الثقلین، ص۱۳۰)
حضور سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ قصیدہ غوثیہ شریف میں فرماتے ہیں: ''بلاد اللہ ملکی تحت حکمی یعنی اللہ عزوجل کے تمام شہر میرے تحت تصرف اور زیر حکومت ہیں.''
(بهجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه مرصعا۔۔۔۔۔۔الخ، ص۱۴۷)
(بهجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه مرصعا۔۔۔۔۔۔الخ، ص۱۴۷)
حضرت عبدالملک ذیال رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بیان کرتے ہیں کہ: میں ایک رات حضور پرُنور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے مدرسے میں کھڑا تھا آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اندر سے ایک عصا دست اقدس میں لئے ہوئے تشریف فرما ہوئے میرے دل میں خیال آیا کہ ''کاش حضور اپنے اس عصا سے کوئی کرامت دکھلائیں.'' ادھر میرے دل میں یہ خیال گزرا اور ادھر حضور نے عصا کو زمین پر گاڑ دیا تو وہ عصا مثل چراغ کے روشن ہوگیا اور بہت دیر تک روشن رہا پھر حضور پرُنور نے اسے اکھیڑ لیا تو وہ عصا جیسا تھا ویسا ہی ہوگیا، اس کے بعد حضور نے فرمایا: ''بس اے ذیال! تم یہی چاہتے تھے.''
(بهجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه۔۔۔۔۔۔الخ، ص۱۵۰)
(بهجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه۔۔۔۔۔۔الخ، ص۱۵۰)
ایک مرتبہ رات میں سرکارِ بغداد حضرتِ سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے ہمراہ شیخ احمد رفاعی اور عدی بن مسافر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے مزار پرُانوار کی زیارت کے لئے تشریف لے گئے، مگر اس وقت اندھیرا بہت زیادہ تھا حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ان کے آگے آگے تھے، آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ جب کسی پتھر، لکڑی، دیوار یا قبر کے پاس سے گزرتے تو اپنے ہاتھ سے اشارہ فرماتے تو اس وقت آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا ہاتھ مبارک چاند کی طرح روشن ہو جاتا تھا اور اس طرح وہ سب حضرات آپ کے مبارک ہاتھ کی روشنی کے ذریعے حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے مزار مبارک تک پہنچ گئے.''
(قلائد الجواہر، ملخصاً ص۷۷)
(قلائد الجواہر، ملخصاً ص۷۷)
حضورِ غوثِ پاک سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی بارگاہ میں ایک جوان حاضر ہوا اور آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے عرض کرنے لگا کہ ''میرے والد کا انتقال ہوگیا ہے میں نے آج رات ان کو خواب میں دیکھا ہے انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ عذاب قبر میں مبتلا ہیں انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ ''حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی بارگاہ میں جاؤ اور میرے لئے ان سے دعا کا کہو.'' آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اس نوجوان سے فرمایا :''کیا وہ میرے مدرسہ کے قریب سے گزرا تھا؟'' نوجوان نے کہا: ''جی ہاں.'' پھر آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے خاموشی اختیار فرمائی. پھر دوسرے روز اس کا بیٹا آیا اور کہنے لگا کہ ''میں نے آج رات اپنے والد کو سبز حلہ زیب تن کیے ہوئے خوش و خرم دیکھا ہے.'' انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ ''میں عذاب قبر سے محفوظ ہوگیا ہوں اور جو لباس تو دیکھ رہا ہے وہ حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کی برکت سے مجھے پہنچایا گیا ہے پس اے میرے بیٹے! تم ان کی بارگاہ میں حاضری کو لازم کرلو.''
🔸پھر حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی نے فرمایا: ''میرے رب عزوجل نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ: ''میں اس مسلمان کے عذاب میں تخفیف کروں گا جس کا گزر (تمہارے) مدرسۃالمسلمین پر ہو گا.''
🔸پھر حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی نے فرمایا: ''میرے رب عزوجل نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ: ''میں اس مسلمان کے عذاب میں تخفیف کروں گا جس کا گزر (تمہارے) مدرسۃالمسلمین پر ہو گا.''
(بهجة الاسرار، ذکر اصحابہ و بشراهم، ص۱۹۴)
ایک بی بی سرکار بغداد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں اپنا بیٹا چھوڑ گئیں کہ ''اس کا دل حضور سے گرویدہ ہے اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے لئے اس کی تربیت فرمائیں.'' آپ نے ا سے قبول فرما کر مجاہدے پر لگا دیا اور ایک روز ان کی ماں آئیں دیکھا لڑکا بھوک اور شب بیداری سے بہت کمزور اور زرد رنگ ہوگیا ہے اور اسے جو کی روٹی کھاتے دیکھا جب بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئیں تو دیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے سامنے ایک برتن میں مرغی کی ہڈیاں رکھی ہیں جسے حضور رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے تناول فرمایا تھا، عرض کی: ''اے میرے مولٰى! حضور تو مرغی کھائیں اور میرا بچہ جو کی روٹی.'' یہ سن کر حضور پرنور رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنا دست اقدس ان ہڈیوں پر رکھا اور فرمایا:
''قُوْمِیْ بِاِذْنِ اللہِ الَّذِیْ یُحْیِی الْعِظَامَ وَ ھِیَ رَمِیْم'' یعنی جى اُٹھ اس اللہ عزوجل کے حکم سے جو بوسیدہ ہڈیوں کو زندہ فرمائے گا. یہ فرمانا تھا کہ مرغی فورا ًزندہ صحیح سالم کھڑی ہو کر آواز کرنے لگی، حضور اقدس رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: ''جب تیرا بیٹا اس درجہ تک پہنچ جائے گا تو جو چاہے کھائے.''
(بھجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه۔۔۔۔۔۔الخ، ص۱۲۸)
''قُوْمِیْ بِاِذْنِ اللہِ الَّذِیْ یُحْیِی الْعِظَامَ وَ ھِیَ رَمِیْم'' یعنی جى اُٹھ اس اللہ عزوجل کے حکم سے جو بوسیدہ ہڈیوں کو زندہ فرمائے گا. یہ فرمانا تھا کہ مرغی فورا ًزندہ صحیح سالم کھڑی ہو کر آواز کرنے لگی، حضور اقدس رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: ''جب تیرا بیٹا اس درجہ تک پہنچ جائے گا تو جو چاہے کھائے.''
(بھجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه۔۔۔۔۔۔الخ، ص۱۲۸)
حضرت شیخ صالح ابو المظفر اسماعیل بن علی حمیری زریرانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا شیخ علی بن ہیتمی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ جب بیمار ہوتے تو کبھی کبھی میری زمین کی طرف جو کہ زریران میں تھی تشریف لاتے اور وہاں کئی دن گزارتے ایک دفعہ آپ وہیں بیمار ہوگئے تو ان کے پاس میرے غوث صمدانی، قطب ربانی، شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النور انی بغداد سے تیمارداری کے لئے تشریف لائے، دونوں میری زمین پر جمع ہوئے، اس میں دو کھجور کے درخت تھے جو چار برس سے خشک تھے اور انہیں پھل نہیں لگتا تھا ہم نے ان کو کاٹ دینے کا ارادہ کیا تو حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کھڑے ہوئے اور ان میں سے ایک کے نیچے وضو کیا اور دوسرے کے نیچے دو نفل ادا کیے تو وہ سبز ہوگئے اور ان کے پتے نکل آئے اور اسی ہفتہ میں ان کا پھل آگیا حالانکہ وہ کھجوروں کے پھل کا وقت نہیں تھا میں نے اپنی زمین سے کچھ کھجوریں لے کر آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں حاضر کر دیں آپ نے اس میں سے کھائیں اور مجھ سے کہا: ’’اللہ عزوجل تیری زمین، تیرے درہم ، تیرے صاع اور تیرے دودھ میں برکت دے.‘‘
🔸حضرت شیخ اسماعیل بن علی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ ’’میری زمین میں اس سال کی مقدار سے دو سے چار گنا پیدا ہونا شروع ہوا، اب میرا یہ حال ہے کہ جب میں ایک درہم خرچ کرتا ہوں تو اس سے میرے پاس دو سے تین گنا آجاتا ہے اور جب میں گندم کی سو (۱۰۰) بوری کسی مکان میں رکھتا ہوں پھر اس میں سے پچاس بوری خرچ کر ڈالتا ہوں اور باقی کو دیکھتا ہوں تو سو بوری موجود ہوتی ہے میرے مویشی اس قدر بچے جنتے ہیں کہ میں ان کا شمار بھول جاتا ہوں اور یہ حالت حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کی برکت سے اب تک باقی ہے.''
(بهجة الاسرار، ذکرفصول من کلامه۔۔۔۔۔۔الخ، ص۹۱)
🔸حضرت شیخ اسماعیل بن علی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ ’’میری زمین میں اس سال کی مقدار سے دو سے چار گنا پیدا ہونا شروع ہوا، اب میرا یہ حال ہے کہ جب میں ایک درہم خرچ کرتا ہوں تو اس سے میرے پاس دو سے تین گنا آجاتا ہے اور جب میں گندم کی سو (۱۰۰) بوری کسی مکان میں رکھتا ہوں پھر اس میں سے پچاس بوری خرچ کر ڈالتا ہوں اور باقی کو دیکھتا ہوں تو سو بوری موجود ہوتی ہے میرے مویشی اس قدر بچے جنتے ہیں کہ میں ان کا شمار بھول جاتا ہوں اور یہ حالت حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کی برکت سے اب تک باقی ہے.''
(بهجة الاسرار، ذکرفصول من کلامه۔۔۔۔۔۔الخ، ص۹۱)
حضرت ابو عبداللہ محمد بن ابوالعباس موصلی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ ''ہم ایک رات اپنے شیخ عبدالقادر جیلانی، غوث صمدانی، قطب ربانی قدس سرہ النورانی کے مدرسہ بغداد میں تھے اس وقت آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں بادشاہ المستنجد باللہ ابوالمظفر یوسف حاضر ہوا اس نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو سلام کیا اور نصیحت کا خواست گار ہوا اور آپ کی خدمت میں دس تھیلیاں پیش کیں جو دس غلام اٹھائے ہوئے تھے آپ نے فرمایا: ''میں ان کی حاجت نہیں رکھتا.'' اور قبول کرنے سے انکار فرمادیا اس نے بڑی عاجزی کی، تب آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ایک تھیلی اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑی اور دوسری تھیلی بائیں ہاتھ میں پکڑی اور دونوں تھیلیوں کو ہاتھ سے دبا کر نچوڑا کہ وہ دونوں تھیلیاں خون ہوکر بہہ گئیں، آپ نے فرمایا: ''اے ابوالمظفر! کیا تمہیں اللہ عزوجل کا خوف نہیں کہ لوگوں کا خون لیتے ہو اور میرے سامنے لاتے ہو.'' وہ آپ کی یہ بات سن کر حیرانی کے عالم میں بے ہوش ہوگیا. پھر حضرت سیدنا حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: ''اللہ عزوجل کی قسم! اگر اس کے حضور نبی پاک، صاحب لولاک، سیاح افلاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے رشتے کا لحاظ نہ ہوتا تو میں خون کو اس طرح چھوڑتا کہ اس کے مکان تک پہنچتا.''
(بهجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه۔۔۔۔۔۔الخ، ص۱۲۰)
(بهجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه۔۔۔۔۔۔الخ، ص۱۲۰)
راوی کا قول ہے کہ میں نے خلیفہ کو ایک دن حضرت سیدنا محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی، قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں دیکھا کہ عرض کر رہاہے کہ ''حضور میں آپ سے کوئی کرامت دیکھنا چاہتا ہوں تاکہ میرا دل اطمینان پائے.''
🔸آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: ''تم کیا چاہتے ہو؟'' اس نے کہا: ''میں غیب سے سیب چاہتا ہوں.'' اور پورے عراق میں اس وقت سیب نہیں ہوتے تھے، آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ہوا میں ہاتھ بڑھایا تو دو سیب آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے ہاتھ میں تھے، آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ان میں سے ایک اس کو دیا. آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنے ہاتھ والے سیب کو کاٹا تو نہایت سفید تھا، اس سے مشک کی سی خوشبو آتی تھی اور المستنجد نے اپنے ہاتھ والے سیب کو کاٹا تو اس میں کیڑے تھے وہ کہنے لگا: ''یہ کیا بات ہے میں نے آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے ہاتھ میں نہایت عمدہ سیب د یکھا ؟'' آپ نے فرمایا: ''ابوالمظفر! تمہارے سیب کو ظلم کے ہاتھ لگے تو اس میں کیڑے پڑ گئے.''
(المرجع السابق، ص۱۲۱)
🔸آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: ''تم کیا چاہتے ہو؟'' اس نے کہا: ''میں غیب سے سیب چاہتا ہوں.'' اور پورے عراق میں اس وقت سیب نہیں ہوتے تھے، آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ہوا میں ہاتھ بڑھایا تو دو سیب آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے ہاتھ میں تھے، آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ان میں سے ایک اس کو دیا. آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنے ہاتھ والے سیب کو کاٹا تو نہایت سفید تھا، اس سے مشک کی سی خوشبو آتی تھی اور المستنجد نے اپنے ہاتھ والے سیب کو کاٹا تو اس میں کیڑے تھے وہ کہنے لگا: ''یہ کیا بات ہے میں نے آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے ہاتھ میں نہایت عمدہ سیب د یکھا ؟'' آپ نے فرمایا: ''ابوالمظفر! تمہارے سیب کو ظلم کے ہاتھ لگے تو اس میں کیڑے پڑ گئے.''
(المرجع السابق، ص۱۲۱)
حضرت شیخ برگزیدہ ابوالحسن قرشی فرماتے ہیں کہ ''میں اور شیخ ابوالحسن علی بن ہیتی حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں ان کے مدرسہ میں موجود تھے تو ان کے پاس ابو غالب فضل اللہ بن اسماعیل بغدادی ازجی سوداگر حاضر ہوا وہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے عرض کرنے لگا کہ: اے میرے سردار! آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے جد امجد حضور پرنور شافع یوم النشور احمد مجتبٰى حضرت محمد مصطفٰى صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ذیشان ہے کہ ''جو شخص دعوت میں بلایا جائے اس کو دعوت قبول کرنی چاہے.''میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ میرے گھر دعوت پر تشریف لائیں.'' آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: ''اگر مجھے اجازت ملی تو میں آؤں گا.'' پھر کچھ دیر بعد آپ نے مراقبہ کرکے فرمایا: ''ہاں آؤں گا.'' پھر آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اپنے خچر پر سوار ہوئے، شیخ علی نے آپ کی دائیں رکاب پکڑی اور میں نے بائیں رکاب تھامی اور جب اس کے گھر میں ہم آئے دیکھا تو اس میں بغداد کے مشائخ، علماء اور معززین جمع ہیں، دسترخوان بچھایا گیا جس میں تمام شیریں اور ترش چیزیں کھانے کے لئے موجود تھیں اور ایک بڑا صندوق لایا گیا جو سربمہر تھا دو آدمی اسے اٹھائے ہوئے تھے اسے دسترخوان کے ایک طرف رکھ دیا گیا، تو ابو غالب نے کہا: ''بسم اللہ! اجازت ہے.'' اس وقت حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ مراقبہ میں تھے اور آپ نے کھانا نہ کھایا اور نہ ہی کھانے کی اجازت دی تو کسی نے بھی نہ کھایا، آپ کی ہیبت کے سبب مجلس والوں کا حال ایسا تھا کہ گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں، پھر آپ نے شیخ علی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ''وہ صندوق اٹھا لایئے. ''ہم اٹھے اور اسے اٹھایا تو وہ وزنی تھا ہم نے صندوق کو آپ کے سامنے لاکر رکھ دیا آپ نے حکم دیا کہ ''صندوق کو کھولا جائے.'' ہم نے کھولا تو اس میں ابو غالب کا لڑکا موجود تھا جو مادر زاد اندھا تھا تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اس سے کہا: ''کھڑا ہو جا.'' ہم نے دیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے کہنے کی دیر تھی کہ لڑکا دوڑنے لگا اور بینا بھی ہوگیا اور ایسا ہوگیا کہ کبھی بیماری میں مبتلا نہیں تھا، یہ حال دیکھ کر مجلس میں شور برپا ہوگیا اور آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اسی حالت میں باہر نکل آئے اور کچھ نہ کھایا. اس کے بعد میں شیخ ابو سعد قیلوی کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ حال بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ ''حضرت سید محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی، قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ مادر زاد اندھے اور برص والوں کو اچھا کرتے ہیں اور خدا عزوجل کے حکم سے مردے زندہ کرتے ہیں.''
(الف، بهجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه۔۔۔۔۔۔الخ، ص۱۲۳)
(الف، بهجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه۔۔۔۔۔۔الخ، ص۱۲۳)
Comments
Post a Comment