قلندر کون ہوتا ہے
قلندر "حال" کا نام ہے ،"قال" کا نہیں ۔ صوفیاء کے گروہ میں اُس جماعت کو قلندر کہتے ہیں جن میں اعمالِ ظاہری تو کم ہوتے ہیں مگر اعمال باطنی ان کے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔اعمال باطنی یہ ہیں کہ اللہ تعالی کے ساتھ معاملہ درست رکھا جائے۔قلب و نظر کی نگہداشت رکھی جائے۔ غیر اللہ کی طرف متوجہ نہ ہُوا جائے ۔ ہمیشہ قلب کو مشغول ذکر رکھا جائے۔ سب کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کیا جائے .قلندر کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ ہمہ وقت تفکر اور مراقبہ میں رہتا ہے۔قلندر کو دنیا کی وضع اور رسوم کی پرواہ نہیں ہوتی ۔ اس کا دِل صاف اور سادہ ہوتا ہے۔ اس کی آرزویہ ہوتی ہے کہ خُدا سے تعلق قائم کر کے باقی سب کو ترک کر دیا جائے۔''.
.قلندر وہ ھے جو روحانی ترقی یہاں تک کر گیا ہو کہ اپنے وجود اور علائقِ دینوی سے بے خبر اور لاتعلق ہو کر ہمہ تن خدا کی ذات کی طرف متوجہ رہتا ہو اور تکلّفاتِ رسمی کی قیود سے چھٹکارا پا گیا ہو، عشق حقیقی میں جذب فقیر۔قلندر جہان تصوف میں ایسی ہستی قرار دی جاتی ہے ، جس نے خود کو پہچان کر اپنے خالق کی پہچان کر لی ہوتی ہے ۔ اور وہ اپنے نفس پر ایسے قادر ہوتا جیسے اک مداری اپنے پالتو سدھائے ہوئے جانوروں پر ۔ اہل تصوف " قلندر " سے مراد " آزاد اور اپنی مستی میں مست ہستی " لیتے ہیں ۔
ایسی مست ہستی جس نے کٹھن مجاہدے کے بعد اپنے نفس پر قدرت پا لی ہو۔" بو علی شاہ " سخی لعل شہباز " جناب رابعہ بصری " یہ تین ہستیاں درجہ " قلندری میں بہت مشہور ہیں ۔ ویسے قلندر ھر دور اور وقت میں ھوۓ ھٰیں اور ھوتے ھیں ۔تصوف میں یہ واحد مقام ہے جو کہ اپنے آپ میں مکمل ہے ۔ باقی تمام تصوف کے سلسلے راہ سلوک پر چلتے سالک سے ولی ۔ ولی سے ابدال ابدال سے قطب قطب سے غوث کی جانب رواں ۔" سالک " سچے دل عبادت و ریاضت سے کیف، جذب، مستی، استغراق، سکر (بے ہوشی) اور صحو (ہوش) ،وجد، حال جیسی کیفیات سے گزرتے " ولی ابدال قطب غوث کے درجے پاتے ہیں ۔قلندر سالک اور مجذوب دونوں کے مزاج اور کیفیات کا حامل ہوتا ہے ۔ سلوک اور جذب کا مجتمع ہو جانا ۔ دونوں کی خصوصیات کا کسی میں مل جانا ۔ قلندریت کا حامل کر دیتا ہے ۔ قلندر پر جذب غالب ہو تو کیفیات اور ہوتی ہیں ۔ ہوش غالب ہو تو کیفیات اور ہوتی ہیں ۔ یہ کبھی باہوش اور کبھی بے ہوش ہوتا ہے۔ دو نوں طرح کی عطائیں اِس پر ہوتی ہیں ۔
قلندر کا ایک معنی ’’ دین و دنیا سے آزاد ‘‘ بھی لیا جاتا ہے ۔ کہ بعض اوقات جذب کی کیفیات غالب آگئیں تو اہل ظاہر کے نزدیک بے ہوش اور دین و دنیا سےآزاد ہے ۔مفلس کے لئے ہے نہ تونگر کے لئے ہےکونین کی ہر شے تو قلندر کے لئے ہےقلندر سے ایک مراد "کُل اندر" بھی لیا جاتا ہے ۔ کہ عالمین اور کُل جہاں اس کے اندر پوشیدہ ہیں ۔سب کچھ سمیٹے ہوئے ہےقلندر :آزاد درویشوں کی ایک قسم جو روحانیت کی طرف مائل ہو ۔ صوفیانہ فلسفہ کا ایک گروہ۔ قلندریہ ایک ایسا گروہ ہے جو تارک الدنیا اور دنیا سے لاپرواہ ہو۔ وہ شخص جو روحانی ترقی یہاں تک کر گیا ہو کہ اپنے وجود اور علائقِ دنیوی سے بے خبر اور لاتعلق ہو کر ہمہ تن خدا کی ذات کی طرف متوجہ رہتا ہو اور تکلیفات رسمی کی قیود سے چھٹکارا پا گیا ہو، عشق حقیقی میں مست فقیر۔
اصطلاح میں قلندر وہ شخص ہے جو دونوں جہان سے پاک اور آزاد رہے اگر ذرا بھی اسے کونین سے لگاو ہو تو وہ مذہب قلندر سے دور اور صاحبان غرور میں شامل ہےکیونکہ قلندر اس ذات سے عبارت ہے کہ نفوس و اشکال عادتی بلکہ آمال بے سعادتی سے بالکل متجردو بے تعلق ہو جاءے اور روح کےمرتبہ تک ترقی کرکے تکلیفات رسمی کی قیود و تعریفات اسمی سے چھٹکارا پانے میں اپنے دامن وجود کو تمام دنیا سے سمیٹ لے اور دست خواہش کو تمام خلائق سے کھینچ لے یہاں تک کہ بدل وجان سب سے قطع تعلق کر کے جمال و جلال کا طالب اور اس کی درگاہ کا واصل ہو جائے ۔
قلندر ملامتی اور صوفی میں یہ فرق ہے کہ قلندر نہایت آزاد اور مجرد عن العلائق ہوتا ہے اور جہاں تک بنتا ہے عادت و عبادت کی تخریب میں کوشش کرتا ہے ملامتی عبادت کے چھپانے میں نہایت ساعی رہتا ہے یعنی کوئی نیکی ظاہر نہیں کرتا اور کوئی بدی چھپا کر نہیں رکھتا ہے]قلندر اور صوفی ہم معنی ہالفاظ ہیں۔ قلندر وہ ہے جو حالات اور مقامات و کرامات سے تجاوز کر جائے خواجہ عبید اللہ احرار فرماتے ہیں کہ موانعات سے مجرد ہو کر اپنے آپ کو گم کر دینے کا نام قلندری ہے۔ شاہ نعمت اللہ ولی فرماتے ہیں کہ صوفی منتہی جب اپنے مقصد پر جا پہنچتا ہے قلندر ہو جاتا ہے]۔ان بندوں میں سے جو بندے قلندر ہوتے ہیں وہ زمان و مکان (Time and space) کی قید سے آزاد ہوجاتے ہیں اور سارے ذی روح اس کے ماتحت کئے جاتے ہیں کائنات کا ذرہ ذرہ ان کے تابع فرماں ہوتا ہے لیکن اللہ کے یہ نیک بندے غرض، طمع، حرص اور لالچ سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ مخلوق جب ان کی خدمت میں کوئی گزارش پیش کرتی ہے تو وہ اس کو سنتے بھی ہیں اور اس کا تدارک بھی کرتے ہیں کیونکہ قدرت نے انہیں اسی کام کے لئے مقرر کیا ہے[]۔قلندر، وہ ہوتا ہے جو کائنات کو مسخر کیے ہوتا ہے، جو ہمہ وقت ایک فاتح سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے ۔ قلندر کے لیے کائنات مثلِ غبارِ راہ ہے اُس میں مزید کی خواہش جنم نہیں لیتی، وہ دولتِ دنیا لُٹا دینا چاہتا ہے۔ قلندر اپنے آپ میں ایک واصل ہوتا ہے قلندر کے در پر سکندر سوالی ہوتا ہے، وہ حصول ِ دنیا میں تا وقتِ قضا ایڑیاں رگڑتا ہے، سسکتا ہے اور خواہش کے کشکول میں حکومت کی بھیک مانگتا ہے۔
قلندر دونوں ہاتھوں سے سب لُٹا کے بے نیاز ہوتا ہے، وہ دمِ رقص ہوتا ہے ..اس کے چہرے کی مسکان اس کی پروان کا پتا دیتی ہے ..قلندر قبولیت کا نام ہے، جبکہ سکندر مقبولیت کا! قلندر درِ عطا پہ جڑا مہرِوفا ہے …وہ سراپائے حق نما ہے .
Comments
Post a Comment