شیخ اکبر محی الدین ابن عربی
شیخ اکبر محی الدین محمد بن علی بن
محمد بن احمد بن عبدللہ بن حاتم طائی المعروف
ابن عربی اندلس کے شہر مرسیہ میں پیر کےدن ١٨
رمضان المبارک ٥٦٠ھ
بمطابق ٢٨ جولائی ١١٢٥
کو پیدا ہوئے .شیخ اکبر کے جد اعلی حاتم
طائی عرب کے قبیلہ بنو طے کے سردار اور اپنی سخاوت کے باعث نہ صرف ارب ممالک بلکہ پوری دنیا میں مشہور تھے
.عزت و جلالت ، علم و تقویٰ اور زہد و
پارسائی میں ان کا خانوادہ ممتاز حثیت رکھتا تھا .آپ کے بہت سارے القاب ہیں مگر ان مقلدوں
اور ارادت کے مندوں میں ایک ہی لقب
سب سے زیادہ مشہور ہے (الشیخ الاکبر) بلا شبہ یہ لقب اپنی تمام تر معنویت اور شکوہ کے ساتھ ان کو
زیبا ہے .
ابن عربی اپنے بارے میں فرماتے ہیں
.میں ایک دفعہ ایسا بیمار ہوا کہ حالت بے ہوشی میں چلا گیا یہاں تک کہ لوگوں نے
مجھے مردہ سمجھ لیا . میں اس حالت میں بہت ہی بھیانک اور ڈراونے چہرے والی ایک قوم
دیکھی جو مجھے آزار پہچانا چاہتی تھی اور ان کے مقابلے میں ایک نہایت حسین و جمیل
اور خوشبو میں بسا ہوا شخص تھا جو انہیں مجھ سے دور کر رہا تھا
یہاں تک کے وہ شخص قوم پر غالب آ گیا ." آپ کون ہیں " میں نے
پوچھا – میں سورہ یسین ہوں تمہارا محافظ – اس نے جواب دیا . اس کے فورا بعد میں ہوش میں آ گیا اور دیکھا میرے والد محترم میرے سرہانے رو رہے
ہیں اور سوره یٰسین پڑھ رہے ہیں .اس وقت تک وہ سوره ختم کر چکے
تھے . میں نے جو کچھ دیکھا تھا ان کے گوش گزار کیا .
زمانہ جاہلیت میں اپنے والد کے ساتھ
تھا قرمونیہ اور ہلمہ کے درمیاں میں
گزر رہا تھا کہ اچانک گورخروں کا ایک جتھا
سامنے آ گیا جو گھاس چرنے میں مصروف تھا
ہا لانکہ میں اس کے شکار کے بہت شوقین تھا
لیکن میں نے دل ہی دل میں تہہ کر لیا تھا کہ اں میں سے کسی کو بھی شکار کر کے
تکلیف نہیں پہنچاؤں گا . میرے خدام اس وقت دور تھے . میرے گھوڑے نے جیسے ہی
گورخروں کو دیکھا تو ان کی طرف زقند بھرنے کو ہوا مگر میں نے اسے روک لیا
اور اس حالت میں کہ نیزہ میرے ہاتھ میں تھا ، میں ان کی ڈار میں داخل ہو گیا . ان میں سے بعضوں کی پشت سے نیزہ ٹکرایا بھی لیکن وہ چرنے میں ایسے
منہمک رہے کہ خدا کی قسم سر اٹھا یا یہاں تک میں ان کے بیچ میں سے آتا ہو ا نکل آیا .ذرا دیر بعد میرے خادم مجھ سے
ملے انہیں دیکھتے ہی گور خر بھاگ گئے . میں اس وقت یہ سارا معاملہ سمجھنے کے قابل نہیں تھا ہاں جب اس طریق یعنی طریق خدا
میں قدم رکھا تو اس کا بھید میں سمجھ آیا .وہ یہ ہے کہ میرے دل میں ان کے لئے جو
امان تھی وہ ان کے نفوس میں سرایت کر گئی .
شیخ ابن عربی
نے ٢٠ یا ٢١
برس کی عمر میں جادہ سلوک میں قدم رکھا .آپ فرماتے ہیں .میں نے اپنا سب کچھ پس پشت ڈالا . اس
وقت میرا کوئی ایسا مرشد و رہنما نہیں تھا جسے میں اپنے معاملات اور ترکہ تفویض کرتا . اسی لئے میں نے اپنے والد سے رجوع کیا کہ مجھے
کیا کرنا چاہیے . میں نے سب کچھ ترک کر دیا تھا . اس وقت میں کسی مرشد کے زریعے
خدا کی جانب مراجعت کی اور نہ ہی اس راہ کے کسی آدمی سے ملا میں تو اپنے آپ سے بھی کٹ کر رہ گیا تھا جیسے ایک مردہ شخص
اپنے خاندان اور اپنی اشیاء
سے . میں نے اپنے والد سے رجوع کیا . انہوں نے میرے پاس جو کچھ تھا اس کے
بارے پوچھا میں سب کچھ ان کے حوالے کر دیا .
ابو جعفر احمد عرینی جب اشبیلہ تشریف لاۓ
تو میں طریق عرفان میں نو وارد تھا . میں سب سے پہلے ان کی زیارت کو گیا . میں نےانہیں
ذکر الہی میں اس طرح مشغول پایا کہ اللہ کے سوا کسی کا دھیان نہ تھا . میں نے
انہیں نام لے کر مخاطب کیا تو میری طرف متوجہ ہوئے مجھے دیکھتے ہی میرا حال جان
لیا اور پوچھا کہ تو نے الله کے راستے پر چلنے کا پکا ارادہ کر لیا ہے . میں نے
عرض کیا جی ہاں ، بندہ ارادہ کر سکتا ہے
لیں اسے ثبات دینے والا خدا ہے یہ سن کر
مجھے ہدایت کی . میں اس ہدایت پر عمل کیا یہاں تک کامیاب ہو گیا حالانکہ وہ دیہاتی تھے بلکہ اُمّی – لکھنا پرھنا
ارو ہسسب کتاب نہیں جانتے تھے .
٥٩٠ھ
میں شہر تلمسان میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا . مجھے بتایا
گیا کہ ایک شخص (ابو عبداللہ طرسوسی) شیخ ابو مدین سے دشمنی رکھتا ہے اور ان کی بد گوئی کرتا ہے .ابو مدین اکابر عارفین میں سے تھے اور میں ان کے مقام و مرتبے سے آگاہ
تھاسو مجھے اس شخص سے اس وجہ سے کد ہو گئی تھی کہ وہ ابو مدین سے دشمنی رکھتاہے . رسول الله
صلی الله علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا تو فلاں شخص سے کیوں عناد رکھتا ہے میں نے عرض کیا کہ وہ ابو مدین کا دشمن
ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کیا وہ الله اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے ؟ فرمایا اے الله کے رسول جی
ہاں .وہ خدا کو اور آپ کو دوست رکھتا ہے .آپ نے فرمایا تو پھر صرف ابو مدین سے خصومت کی وجہ سے تو اسے دشمن میں سمجھتا
ہے اور خدا اور اس کے رسول سے دوستی کی
بنیاد پر اسے پسند کیوں نہیں کرتا ؟ میں نے عرض کیا یا رسول الله مجھ سے خطاء ہوئی
. میں توبہ کرتا ہوں اور اب وہ شخص مجھے جی جان سے پیارا ہے . خواب سے بیدار ہواتو
ایک لباس اور بہت سی نقدی لے کر اس کے پاس
گیا اور اپنا خواب سنایا . وہ رونے لگا اور میرا تحفہ قبول کر لیا اور اس خواب کو الله کی جانب سے تنبیہ جانا اپنے کے پر پشیمان
ہوا اور ابو مدین سے دشمنی چھوڑ دی .
نیز شہر اشبیلہ میں مسجد ازہر میں با جماعت نماز کے دوران وہ مقام
تجلی پر فائز ہوئے . ایک نور درخشندہ ان کے مشاہدہ میں آیا اور اس لمحے انہو ں نے خود کو ایک جسد بے جہات پایا جیسا کہ خود لکھتے ہیں :
اور یہ تجلی وہ مقا م ہے کہ ٥٩٠
ھ میں نماز عصر کے دوران میں اس پر فائز کیا گیا اس وقت میں مسجد ازہر میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھ رہا
تھا پھر میں نے ایک نور دیکھا کہ اس سے میرے سامنے کی ہر چیز روشن ہو گئی لیکن جس
گھڑی میں اسے دیکھ رہا تھا میری مخلوقیت مجھ
سے زائل ہو گئی میرے لئے نہ سامنے رہا نہ پیچھے اور اس مشاہدے سے سمتوں کا فرق مٹ
گیا بلکہ میں ایک کمرے کی مانند ہو گیا اور اپنے لئے کسی سمت کی شناخت نہ کر سکا . ایسا ہی ایک
مشاہدہ مجھے پہلے بھی ہو چکا تھا البتہ اس سے پہلے جو کشف ہوا تھا اس کا اندازہ
مختلف تھا . اس کشف میں اشیاء میرے سامنے دیوار میں سے مجھ پر ظاہر ہوئی تھیں لیکن
آج کا کشف ویسا نہ تھا .
شیخ الاکبر کے یہ اشعار جذب وشوق کے ترجمان ہیں :(میرا دل ہر ایک صورت کا مسکن بن گیا
ہے . یہ غزالوں کے لئے ایک چراگاہ اور عیسا
ئی راہبوں کے لئے خانقاہ اور بت پرستوں کے لئے مندر اور حاجیوں کے لئے کعبه اور الواح تورہ اور کتاب القران . میں مذہب عشق
کا پیرو ہوں اور اسی سمت چلتا ہوں جدھر اس کا کارواں مجھے لے جائے کیوں
کہ یہی میرا دین ہے اور یہی میرا امان )
شیخ الاکبر ابن عربی بے ایک روایت کے
مطابق دو اور ایک روایت کے مطابق چار شادیاں کیں . مکہ میں پہنچ کر آپ نے پورے
اطمینان قلب سے تصنیف و تالیف کا سلسلہ
شروع کیا . اسی سال اسی مقدس شہر میں خاتم
الولایه کے منصب پر فائز ہونے کا یہ خواب دیکھا جسے فتوحات میں کچھ یوں بیان کیا ہے :
٥٩٩
ھ میں مکے میں میں نے ایک خواب دیکھا کیا
دیکھتا ہوں کہ کعبہ سونے اور چاندی کی اینٹوں سے بنا ہوا ہے ،مکمل پورا جس میں
کوئی نقص نہیں . اس کی سج دھج دیکھ کر میری آنکھیں خیرہ ہو گئیں . اچانک نظر پڑی
کہ رکن یمانی اور رکن شامی کے درمیان ذرا سا رکن شامی کی طرف کو دیوار میں دو
اینٹوں کی جگہ خالی ہے ایک سونے کی اور ایک چاندی کی . اوپر کے ردے میں سونے کی کم
تھی اور نیچے والے میں چاندی کی . اس وقت میں نے مشاہدہ کیا کہ وہ خالی جگہ میری
ذات سے پر ہو گئی اور گویا میں خود وہ دو اینٹیں بن گیا . اس طرح دیوار مکمل ہو گئی اور
کعبے میں کوئی چیز کم نہ رہی . میں نے جان لیا کہ وہ اینٹیں میرا عین ہیں اور میں
ان کا اور اس میں کوئی شک نہ رہا . جب بیدار ہوا تو الله کا شکر ادا کیا اور اس
خواب کی اپنے لئے یوں تعبیر کی کہ میں اولیا میں ویسا ہی ہوں گا جیسا کہ انبیا میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور یہ مجھے
شاید ختم ولایت کی بشارت ہے .
ان کے خلیفہ شیخ صدر الدین قو نوی بتانے
ہے : میں گواہ ہوں کہ ہمارے شیخ میں متعدد ایسی چیزیں تھیں . انہوں نے مجھے بتایا
کہ ایک مرتبہ خواب میں حضور صلی الله علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوا اور آپ صلی
الله علیہ وسلم نے فرمایا " خدا تمھاری عبادات کی جزا سر انجام دینے سے پہلے
ہی دے دیتا ہے " اگر وہ کسی چیز کی حقیقت جاننا چاہتے ہوں تو اسے بغور دیکھتے اور پھر اس کے مستقبل حتی کہ اس
کے انجام کی خبر دے دیتے اور وہ کبھی غلط ثابت نہ ہوئی . وہ لوگوں کے نہ صرف حال
بلکہ ماضی کے حقائق و احوال بھی جان سکتے تھے "
انبیاء و مرسلین کے عینی مشاہدات کے سلسلے میں لکھتے ہیں :"میں نے تمام انبیاء و رسل کا عینی مشاہدہ کیا ہے . میں نے قوم عاد کے پیغمبر حضرت ھود
علیہ السلام سے براہ راست گفتگو کی ہے . میں نے تمام مومنین
کا جو اس وقت تک پیدا ہو چکے ہیں اور
قیامت تک پیدا ہوں گے عینی مشاہدہ کیا ہے . الله نے دو مختلف وقتوں میں لیکن ایک ہی جگہ ان کا
مشاہدہ کرایا ہے . آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو چھوڑ کر میں باقی تمام رسولوں کی
ہم نشینی کا فیض اٹھایا ہے .اور اس سے نفع حاصل کیا ہے . میں حضرت ابراہیم خلیل
الله سے قران پڑھا ہے . حضرت عیسی روح
الله کے ہاتھ پر توبہ کی ہے حضرت
موسیٰ کلیم الله نے مجھے کشف و ایضاح اور رات دن کے الٹ پھر کا علم عطا فرمایا ہے اور جب مجھے یہ علم
حاصل ہو گیا میرے لئے رات رات نہ رہی بلکہ پورا ہی دن ہو گیا . میرے لئے سورج کے
طلوع و غروب کا کوئی فرق باقی نہ رہا . اس کا کشف خدا کی طرف سے اس بات کی اطلاع
تھی کہ آخرت میں شقاوت و بد بختی میں میرا کوئی حصہ نہیں ہے . میں نے حضرت خضر
علیہ السلام سے ایک مسلہ کی وضاحت چاہی تو آپ نے مجھے اس م کی معرفت بخشی اور مجھے اس زمانہ تک کے وجود
کی معرفت ہو گئی . رسولوں میں سے آنحضرت
صلی الله علیہ وسلم ، حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ ، حضرت عیسی ، حضرت ھود اور حضرت
داود کے آٹھ معاشرت اختیار کی . باقی رسولوں کو میں نے صرف دیکھا ان کی صحبت مجھے
حاصل نہیں ہوئی ہے ."
Masha Allah
ReplyDelete