حضرت لعل سھباز قلندر اور بودلہ بہار

ایک  رات  حضرت لعل شہباز قلندر  نے   عشا کی نماز ادا کی اور اس کے بعد خدمت گاروں کی موجودگی میں اپنے اس شاگرد کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا جو راجہ جیر جی کے قید میں تھا اور   کئی مہینوں سے درد ناک سزائیں برداشت کر رہا تھا.
"بودلہ  اب تم ہمارے پاس چلے آؤ! ہماری آنکھیں تمھیں دیکھنے کے لیے بے چین ہیں "
خدمات گار حیران تھے کہ  پیر و مرشد کسے پکار رہے  ہیں ؟ بودلہ کون ہے اور کہا ں رہتا  ہے ؟
خادموں کو  حیرت زدہ پا کر شیخ نے فرمایا ."بودلہ ہمارا مرید ہے اور تمہارا بھائی ہے .وہ ہمارے ہی حکم پر سہون آیا تھا مگر یہاں کے جابر حاکم نے جھوٹا الزام لگا کر اسے قید خانے میں ڈال دیا ...مگر آج رات  زنداں  کی  دیواروں میں گہرے شگاف پڑ جائیں گے اور تمام زنجیریں کھل کر  زمین پر گر پڑیں گی . بودلہ بس آنے ہی والا ہے "
ادھر شیخ کی زبان  مبارک سے یہ کلمات ادا ہوئے  اور ادھر بودلہ کا زخمی جسم اچانک زنجیروں سے آزاد ہو گیا . بودلہ نے  بڑی  حیرت سے یہ منظر دیکھا .ابھی اس کی حیرت برقرارہی تھی کہ یکایک زنداں کا  دروازہ کھل گیا .بودلہ سمجھ گیا کہ یہ تائید غیبی کے سوا کچھ نہیں . اس نے بے اختیار نعرہ مارا.
"میرا مرشد آ گیا ... میرا مرشد آ گیا ."
شدید زخمی ہونے کے باوجود بودلہ کی ناتوانی انتہا کو پہنچ چکی تھی مگر زنجیروں سے آزاد ہونے کے بعد اسے  اپنے جسم    میں نئی توانائی محسوس ہونے لگی .وہ تیزی سے اٹھا اور کمرے سے باہر نکل آیا .قید خانے کے میدان سے گزر کر صدر دروازے کی طرف آیا تو زنداں کی بلند دیواریں اس کا راستہ روکے کھڑی  تھی . بودلہ نے حسرت سے دیواروں کی طرف دیکھا .یکایک ایک دیوار شق ہوئی اور اس میں گہرا شگاف پڑ گئے  . بودلہ نے زور دار نعرہ مارا اور شگاف سے گزر کر باہر آ گیا .
پھر اسے مرشد کی آواز   سنائی دی . "بودلہ اسی راستے پر چلے آؤ  ہم تمہارا انتظار  کر رہے ہیں ."
بودلہ نے  حیران ہو کر ادھر ادھر دیکھا مگر دور دور تک کسی کی موجودگی کے آثار نہیں تھے . وہ اپنے مرشد کی  آواز کو پہچانتا تھا آخر اسی آواز کے سہارے چل پڑا.ابھی تھوڑا ہی فاصلہ طے ہوا تھا کہ بودلہ کو چند خیمے چند نظر آئے. پھر وہ غیر ارادی طور پر ایک خیمے میں داخل ہو گیا . یہ اس کے مرشد کا خیمہ تھا . بودلہ نے حیران ہوں کر شیخ  کی طرف دیکھا . پھر والہانہ انداز میں آگے بڑھا اور مرشد کے قدموں  سے لپٹ  کر رونے لگا .شیخ کے دوسرے خدمت گار بھی ایک  اجنبی شخص کو  خیمے میں داخل ہوتے دیکھ کر  اس کے گرد سمٹ آئے تھے .بودلہ ہچکیوں سے رو رہا تھا اور مرشد اس کے جسم پر ہاتھ پھرتے ہوئے نہایت مشفقانہ لہجے  میں فرما رھے تھے .'بس  تمھاری آزمائش ختم ہوئی . تم سرخرو   ہوئے اور تمھارے دشمن ہلاکت کو پہنچے ."
  خدمت گاروں نے دیکھا کہ اجنبی شخص کے پورے جسم پر زخموں  کے نشانات تھے اور جگہ جگہ سے گوشت نچا ہوا تھا .
شیخ نے اپنے خدام کی طرف دیکھ کر فرمایا ."یہ تمہارا بھائی بودلہ ہے . اسے حاکم سہون نے نا حق ستایا ہے . انشاءللہ ! وہ بہت جلد اپنے عبرتناک انجام کو
پہنچے گا ."

پھر دیکھنے والے حیران رہ گئے . چند روز میں بودلہ کے تمام زخم کسی دوا کے بغیر بھر گئے اور جسم پر چوٹ کا کوئی نشان باقی نہ رہا .

Comments

Popular posts from this blog

سرکار غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی کرامات

تذکرہ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز رحمتہ الله علیہ

حضور باقی باالله کسے کہتے ہیں ؟