حضرت سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کی ایک کرامت
حضرت سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کے محل پاک (مزار پاک) کے دروازے کے سامنے بیر کا ایک درخت ہوا کرتا تھا۔ یہ درخت دروازے کے وسط میں تھا اس لئے
جو لوگ زیارت کرنے جاتے انہیں بڑی تکلیف ہوتی اور پھر دروازے کے سامنے ہونے کی وجہ سے درمیان میں پردہ سا حائل رہا کرتا۔ خلفاء اور مجاور ادب کے سبب بیر کے اس درخت کا کاٹنا جائز خیال نہ کرتے تھے ۔ ایک روز ایک نابینا شخص زیارت کے لئے محل پاک کے اندر داخل ہونے لگا کہ اس کی پیشانی درخت کے ایک مضبوط تنے سے ٹکرا گئی جس سے وہ شدید زخمی ہوگیا اور پیشانی سے خون بہنے لگا ۔ خلفاء اور مجاوروں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ کل نمازِ فجر کے بعد اس درخت کو کاٹ دیا جائے۔ اسی زمانہ میں ایک فقیر حضرت محمد صدیق رحمتہ اللہ علیہ ڈیرہ اسماعیل خاں سے آکر دربار پاک پرمعتکف ہوئے تھے بڑے صاحبِ حال فقیر تھے وہ بھی اس مشاورت میں شامل تھے۔ چنانچہ رات کو حضرت سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ نے خواب میں محمد صدیق رحمتہ اللہ علیہ کو فرمایا کہ '' ہماری بیری کے درخت کو کیوں کاٹتے ہو ' وہ خود بخود یہاں سے دور جاکھڑا ہوگا ۔'' صبح دیکھا گیا کہ واقعی وہ درخت اپنے اصلی مقام سے دس قدم کے فاصلہ پر کھڑا ہے۔
یہ مبارک درخت دہلیز کے وسط سے عین شمال کی طرف یعنی زیارت کرنیوالوں کے دائیں ہاتھ خود بخود جا کھڑا ہوا۔ اس روز سے اس درخت کا نام حضوری بیر ہے۔ اس کا میوہ زیارت کرنیوالے ہزار ہاکو س تک بطور تبرک لے جاتے ہیں۔ اسے بیماروں کی شفا حصولِ اولاد اورتبرک کیلئے کھاتے ہیں اگر پھل میسر نہ ہو تو اس کے پتے ہی تبرک کیلئے لے جاتے ہیں ۔ اس کرامت سے خواب میں حضرت سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ نے محمد صدیق رحمتہ اللہ علیہ کو مطلع فرمایا تھا اس لیے ان خلیفہ موصوف کا لقب '' بیر والا صاحب '' اور مخدوم صاحب بیر والا '' پڑ گیا اور ان کے مرید اِن کو اسی نام سے پکارتے تھے ۔
Comments
Post a Comment