حضر ت خواجہ معین الدین چشتی

ایک دن حضرت خواجہ معین الدین چشتی (رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ) اپنےباغ میں درختوں کو پانی دےرہےتھےکہ ادھر سےمشہور بزرگ حضرت ابراہیم قندوزی(رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ) کاگزر ہوا۔ آپ نےبزرگ کو دیکھا تو دوڑتےہوئےگئےاور حضرت ابراہیم قندوزی(رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ) کےہاتھوں کو بوسہ دیا۔ 
حضرت ابراہیم قندوزی(رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ) ایک نوجوان کےاس جوش عقیدت سےبہت متاثر ہوئی۔ انہوں نےکمال شفقت سےآپ کےسر پر ہاتھ پھیرا اور چند دعائیہ کلمات کہہ کر آگےجانےلگےتو آپ نےحضرت ابراہیم قندوزی(رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ) کا دامن تھام لیا۔
حضرت ابراہیم(رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ) نےمحبت بھرےلہجےمیں پوچھا اےنوجوان! ”آپ کیا چاہتےہیں؟“
حضر
 ت خواجہ معین الدین چشتی(رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ) نےعرض کی کہ آپ چند لمحےاور میرےباغ میں قیام فرما لیں۔ کون جانتا ہےکہ یہسعادت مجھےدوبارہ نصیب ہوتی ہےکہ نہیں۔ آپ کالہجہ اس قدر عقیدت مندانہ تھا کہ حضرت ابراہیم(رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ) سےانکار نہ ہو سکا اور آپ باغ میں بیٹھ گئے۔ پھر چند لمحوں بعد انگوروں سےبھرےہوئےدو طباق لئےآپ حضرت ابراہیم(رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ) کےسامنےرکھ دئیےاور خود دست بستہ کھڑےہو گئے۔ 
اس نو عمری میں سعادت مندی اورعقیدت مندی کا بےمثال مظاہرہ دیکھ کر حضرت ابراہیم(رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ) حیران تھے۔ انہوں نےچند انگور اٹھا کر کھا لئے۔ حضرت ابراہیم(رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ) کےاس عمل سےآپ کےچہرےپر خوشی کا رنگ ابھر آیا۔ یہ دیکھ کر حضرت ابراہیم قندوزی(رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ) نےفرمایا۔ معین الدین(رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ) بیٹھ جائو!
آپ دوزانوں ہو کر بیٹھ گئے۔ فرزند! تم نےایک فقیر کی خوب مہمان نوازی کی ہی۔ یہ سرسبز شاداب درخت‘ یہ لذیذ پھل یہ ملکیت اورجائیداد سب کچھ فنا ہو جانےوالا ہے۔ آج اگریہاں بہار کا دور دورہ ہےتو کل یہاں خزاں بھی آئےگی۔ یہی گردش روزوشب ہےاور یہی نظام قدرت بھی۔ تیرا یہ باغ وقت کی تیز آندھیوں میں اجڑ جائےگا۔ پھر اللہ تعالیٰ تجھےایک اور باغ عطا فرمائےگا۔ جس کےدرخت قیامت تک گرم ہوائوں سےمحفوظ رہیں گے۔ ان درختوں میں لگےپھلوں کا ذائقہ جو ایک بار چکھ لےگا پھر وہ دنیا کی کسی نعمت کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھےگا۔ حضرت ابراہیم قندوزی(رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ) نےاپنےپیرھن میں ہاتھ ڈال کر جیب سےروٹی کا ایک خشک ٹکڑا نکال کر حضرت خواجہ(رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ) کی طرف بڑھا دیا اور فرمایا وہ تیری مہمان نوازی تھی یہ فقیر کی دعوت ہے۔
یہ کہہ کر خشک روٹی کاوہ ٹکڑا حضرت معین الدین چشتی(رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ) کےمنہ میں ڈال دیا۔ پھر باغ سےنکل کر اپنی منزل کی جانب تیزی سےچل دیئے۔
حضرت ابراہیم کی دی ہوئی روٹی کا ٹکڑا اس قدر سخت اور خشک تھا کہ اس کا چبانا دشوار تھا۔ مگر آپ نےایک بزرگ کا تحفہ سمجھ کر وہ روٹی کا ٹکڑا کھا لیا۔ اس ٹکڑےکا حلق سےنیچےاترنا ہی تھا کہ حضرت معین الدین چشتی(رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ) کی دنیا ہی بدل گئی۔

Comments

Popular posts from this blog

سرکار غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی کرامات

تذکرہ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز رحمتہ الله علیہ

حضور باقی باالله کسے کہتے ہیں ؟