Posts

Showing posts from September, 2017

فاروقِ اعظم کا دریائے نیل کو خط"

Image
فاروقِ اعظم کا دریائے نیل کو خط" امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں ایک مرتبہ مصرکا دریائے نیل خشک ہوگیا۔ مصری<p> باشندوں  نے  مصر کے گورنر عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فریاد کی اوریہ کہا کہ مصر کی تمام ترپیداوارکا دارومداراسی دریائے نیل کے پانی پر ہے ۔ اے امیر!اب تک ہمارا یہ دستور رہا ہے کہ جب کبھی بھی یہ دریا سوکھ جاتاتھا تو ہم لوگ ایک خوبصورت کنواری لڑکی کو اس دریا میں زندہ دفن کر کے دریا کی بھینٹ چڑھایا کرتے تھے تو یہ دریا جاری ہوجایا  کرتاتھا اب ہم کیا کریں؟ گورنر نے جواب دیا کہ ارحم الراحمین اوررحمۃ للعالمین کا رحمت بھرا دین ہمارا اسلام ہرگز ہرگزکبھی بھی اس بے رحمی اورظالمانہ فعل کی اجازت نہیں دے سکتا لہٰذا تم لوگ انتظار کرو میں دربار خلافت میں خط لکھ کر دریافت کرتاہوں وہاں سے جو حکم ملے گا ہم اسپر عمل کریں گے چنانچہ ایک قاصدگورنر کا خط لے کر مدینہ منورہ دربار خلافت میں حاضر ہوا امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گورنر کا خط پڑھ کر دریائے نیل کے نام ایک خط تحریر فرمایا جس کا مضمون یہ تھا کہ ’’اے دریائے نیل ! اگر ت...

ﺣﻀﺮﺕ ﺟﻨﯿﺪ ﺑﻐﺪﺍﺩﯼ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ

ﺣﻀﺮﺕ ﺟﻨﯿﺪ ﺑﻐﺪﺍﺩﯼ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﻐﺪﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﻣﯿﺮ ﺷﺨﺺ ﺭﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﯼ ﭼﮩﺮﮦ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﺴﻦﻭ ﺟﻮﺍﻧﯽ ﭘﺮ ﺑﮩﺖ ﻧﺎﺯ ﺗﮭﺎ ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﻭﮦ ﺑﻨﺎﺅ ﺳﻨﮕﮭﺎﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺁﺋﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺑﮩﺖ ﻓﺨﺮ ﺳﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﮐﮧﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮔﺎ ﺟﻮ ﻣﺠﮫ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﻃﻤﻊ ﻧﮧ ﮐﺮﮮ .ﺧﺎﻭﻧﺪ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﻭﺭ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﭘﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﺟﻨﯿﺪ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﭘﺮ ﯾﮧ ﺍﻋﺘﻤﺎﺩ ﺿﺮﻭﺭ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﭼﺎﮨﺖ ﻧﮧ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ۔ ﺑﯿﻮﯼﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﺍﯾﺴ ﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺁﺯﻣﺎﻟﯿﺘﯽ ﮨﻮﮞ ﯾﮧ ﮔﮭﻮﮌﺍ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﮐﺎ ﻣﯿﺪﺍﻥ ۔ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺟﻨﯿﺪﮐﺘﻨﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﯿﮟ ۔ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺩﮮ ﺩﯼ . ﻭﮦ ﻋﻮﺭﺕ ﺣﻀﺮﺕ ﺟﻨﯿﺪ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﻠﺌﮧ ﭘﻮﭼﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﮩﺎﻧﮯ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﺋﯽ ۔ ﺧﻮﺏ ﺑﻦ ﺳﻨﻮﺭ ﮐﺮ ﺁﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﻠﺌﮧ ﭘﻮﭼﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﭘﻨﺎ ﻧﻘﺎﺏ ﮐﮭﻮﻝ ﺩﯾﺎ ﺣﻀﺮﺕ ﺟﻨﯿﺪ ﺑﻐﺪﺍﺩﯼ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﻧﻈﺮ ﭘﮍﯼ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍ ﻧﻈﺮﺟﮭﮑﺎ ﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺯﻭﺭ ﺳﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﯽ ﺿﺮﺏ ﻟﮕﺎﺋﯽ ، ﯾﮧ ﺿﺮﺏ ﺍﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﻮﺳﺖ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﻭﮦ ﭼﭗ ﭼﺎﭖ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯﻭﺍﭘﺲ ﺁﮔﺌﯽ . ﮔﮭﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﺑﺪﻝ ﭼﮑ...

حضر ت خواجہ معین الدین چشتی

ایک دن حضرت خواجہ معین الدین چشتی (رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ) اپنےباغ میں درختوں کو پانی دےرہےتھےکہ ادھر سےمشہور بزرگ حضرت ابراہیم قندوزی(رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ) کاگزر ہوا۔ آپ نےبزرگ کو دیکھا تو دوڑتےہوئےگئےاور حضرت ابراہیم قندوزی(رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ) کےہاتھوں کو بوسہ دیا۔  حضرت ابراہیم قندوزی(رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ) ایک نوجوان کےاس جوش عقیدت سےبہت متاثر ہوئی۔ انہوں نےکمال شفقت سےآپ کےسر پر ہاتھ پھیرا اور چند دعائیہ کلمات کہہ کر آگےجانےلگےتو آپ نےحضرت ابراہیم قندوزی(رحمتہ الل ہ تعالٰی علیہ) کا دامن تھام لیا۔ حضرت ابراہیم(رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ) نےمحبت بھرےلہجےمیں پوچھا اےنوجوان! ”آپ کیا چاہتےہیں؟“ حضر   ت خواجہ معین الدین چشتی(رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ) نےعرض کی کہ آپ چند لمحےاور میرےباغ میں قیام فرما لیں۔ کون جانتا ہےکہ یہسعادت مجھےدوبارہ نصیب ہوتی ہےکہ نہیں۔ آپ کالہجہ اس قدر عقیدت مندانہ تھا کہ حضرت ابراہیم(رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ) سےانکار نہ ہو سکا اور آپ باغ میں بیٹھ گئے۔ پھر چند لمحوں بعد انگوروں سےبھرےہوئےدو طباق لئےآپ حضرت ابراہیم(رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ) کےسامنےرکھ دئیےاور ...

وقتِ رخصت کہہ رہا ہے خاک میں ملتا سہاگ

باغ جنت کے ہیں بہرِ مدح خوان ِاہلبیت تم کو مژدہ نار کا اے دشمنانِ اہلبیت کس زباں سے ہو بیانِ عز و شانِ اہلبیت مدح گوئے مصطفے ہے مدح خوانِ اہلبیت ان کی پاکی کا خدائے پاک کرتا ہے بیاں آیہء تطہیر سے ظاہر ہے شانِ اہلبیت مصطفے عزت بڑھانے کے لیے تعظیم دیں ہے بلند اقبال تیرا دودمانِ اہلبیت ان کے گھر بے اجازت جبریل آتے نہیں قدر والے جانتے ہیں قدر و شانِ اہلبیت مصطفٰے بائع خریدار اس کا اللہ اشتری خوب چاندی کر رہا ہے کاروانِ اہلبیت رزم کا میدان بنا ہے جلوہ گاہِ حسن و عشق کربلا میں ہو رہا ہے امتحانِ اہلبیت پھول زخموں کے کھلائے ہیں ہوائے دوست نے خون سے سینچا گیا ہے گلستانِ اہلبیت حوریں کرتی ہے عروسانِ شہادت کا سنگار خوبرو دولھا بنا ہے ہر جوانِ اہلبیت ہو گئی تحقیقِ عید، دیدِ آبِ تیغ سے اپنے روزے کھولتے ہیں صائمانِ اہلبیت جمعہ کا دن ہے کتابیں زیست کی طے کر کے آج کھیلتے ہیں جان پر شہزادگانِ اہلبیت اے شبابِ فصلِ گل یہ چل گئی کیسی ہوا کٹ ریا ہے لہلہاتا بوستانِ اہلبیت کس شقی کی ہے حکومت ہائے کیا اندھیر ہے دن دھاڑے لٹ رہا ہے کاروانِ اہلبیت خشک ہو جا خاک ہو کر خاک میں مل جا فرا...

"ﺍﻟﻠﮧ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﻨﮯ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ"

"ﺍﻟﻠﮧ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﻨﮯ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ" ﺣﻀﺮﺕ ﺑﮩﻠﻮﻝ ﺩﺍﻧﺎ ؒ ﮐﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﻐﺪﺍﺩ ﮐﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﺩﻟﯽ ﺗﻤﻨﺎ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺑﮩﻠﻮﻝ ﺩﺍﻧﺎ ؒ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﮐﺮﯾﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺁﭖؒ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﺩﺭﺑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻧﮧ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ۔۔۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﯾﻮﮞ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﭼﮭﺖ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺑﮩﻠﻮﻝ ﺩﺍﻧﺎ ؒ ﮐﻮ ﺷﺎﮨﯽ ﻣﺤﻞ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﺗﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﻓﻮﺭًﺍ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺑﮩﻠﻮﻝ ﺩﺍﻧﺎؒ ﮐﻮ ﮐﻤﻨﺪ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﻣﺤﻞ ﮐﯽ ﭼﮭﺖ ﭘﺮ ﮐﮭﯿﻨﭻ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ۔۔۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ . ﺟﺐ ﺁﭖؒ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﯾﮧ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﮯ ﺁﭖ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﮏ ﮐﯿﺴﮯ ﭘﮩﻨﭽﮯ۔؟ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﺁﭖ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﺎ . ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯽ ” ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ " ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ، ﺍﮮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ! ﺍﮔﺮ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﺁﭖ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺗﻮ ﻧﮩﺎ ﺩﮬﻮ ﮐﺮ ، ﻟﺒﺎﺱ ﻓﺎﺧﺮﮦ ﭘﮩﻦ ﮐﺮ ، ﺩﺭﺑﺎﻥ ﮐﯽ ﻣﻨﺘﯿﮟ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻣﺤﻞ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺗﺎ۔۔۔ ﭘﮭﺮ ﻋﺮﺿﯽ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﺗﺎ ﭘﮭﺮ ﮔﮭﻨﭩﻮﮞ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮﺗﺎ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﻣﻤﮑﻦ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﻣﯿﺮﯼ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﺭﺩ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯ۔۔۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺐ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﻼﻧﺎ ﭼﺎﮨﺎ ﺗﻮ ﻣﺤﺾ ﮐﭽﮫ ﻟﻤﺤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺑﻼ ﻟﯿﺎ . ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺟﺐ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻨﺪﮮ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺩﺍ ﭘﺴﻨﺪ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻟﻤﺤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻗﺮﺏ ﮐﯽ ﻭﮦ ﻣﻨﺰﻟﯿﮟ ﻃﮯ ﮐﺮﻭﺍ ﺩﯼ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺑﮍﮮ ﺑﮍﮮ ﻋﺎﺑﺪﻭﮞ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﺎﻋﺚ ﺭﺷﮏ ...
ایک بلند و برتر ذات اور ہر طرح کے نقص سے پاک خدا سے محبت کرنا بظاہر تو آسان سی بات معلوم ہوتی ہے۔، لیکن اس سے کہیں زیادہ مشکل بات یہ ہے کہ انسان اپنے ابنائے جنس سے محبت کرے جن میں ہر طرح کی کمزوریاں اور خامیاں  پائی جاتی ہیں۔ یاد رکھو کہ انسان اسی کو جان سکتا ہے جس سے وہ محبت کرنے پر قادر ہو۔ محبت کے بغیر کوئی معرفت معرفت نہیں ہوتی۔ جب تک ہم اللہ کی تخلیق سے محبت کرنا نہیں سیکھتے، تب تک ہم اس قابل نہیں ہوسکتے کہ اللہ سے حقیقی طور پر محبت کرسکیں اور اسکو جان پائیں۔
ہر انسان ایک تشنہءِ تکمیل فن پارہ ہے۔جسکی تکمیل کیلئے خدا ہر انسان کے ساتھ داخلی اور خارجی طور پر مصروفِ کار ہے ۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ خدا ہم میں سے ہر ایک کے ساتھ انفرادی سطح پر معاملہ کرتا ہے کیونکہ انسانیت ایک بیحد لطیف اور نفیس مصوری کا شہکار ہے جس پر ثبت کیا جانے والا ہر ایک نقطہ پوری تصویر کیلئے یکساں اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
حالتزندگی میں جو بھی تبدیلی تمہارے راستے میں آئے، اسکے استقبال کیلئے تیار رہو، اسکی مزاحمت مت کرو بلکہ زندگی کو اس بات کا موقع دو کہ تم میں سے گذر کر اپنا راستہ بناسکے۔ اس بات کی فکر مت کرو کہ زندگی میں نشیب و فراز آرہے ہیں۔ تمہیں کیا پتہ کہ آنے والی تبدیلی تمہارے حق میں بہتر ہے یا موجودہ ؟
آسمان پر شائد اتنے ستارے نہ ہوں جتنے دنیا میں جھوٹے اور ناقص شیوخ پائے جاتے ہیں۔ تم کبھی بھی کسی سچے مرشد کو کسی ایسے مرشد سے مت ملانا جو نفس کا پجاری ہو اور اپنی ذات کا اسیر ہو۔ ایک سچا مرشد کبھی بھی تمہیں اپنی ذات کا اسیر بنانے کی کوشش نہیں کرے گا اور نہ ہی اپنے نفس کیلئے تم سے تابعداری اور تعریف و تو صیف کا تقاضا کرے گا۔ بلکہ اسکے برعکس وہ تمہیں تمہاری اصل اور حقیقی شخصیت سے متارف کروائے گا۔ سچے اور کامل مرشد تو کسی شیشے کی مانند شفا ف ہوتے ہیں تاکہ خدا کا نور ان میں سے کامل طور پر چِھن کر تم تک پہنچ سکے۔
محبت کی تلاش ہمیں تبدیل کرکے رکھ دیتی ہے۔ راہِ عشق میں ایسا کوئی مسافر نہیں گذرا جسے اس راہ نے کچھ نہ کچھ پختگی نہ عطا کی ہو۔ جس لمحے تم محبت کی تلاش کا سفر شروع کرتے ہو، تمہارا ظاہر اور باطن تبدیلی کے عمل سے گذرنا شروع ہوجاتا ہے۔