نماز ِ عشق
جب نمازِ عشق کی نیت کر لی جاتی ہے تو ظاہری عبادت گاہ اور ظاہری عبادت, دونوں کا تصور معدوم ہو جاتا ہے کیونکہ عبادت گاہ عاشق کے اپنے اندر قائم ہو جاتی ہے۔
ایسی عبادت گاہ جس میں معبودِ حق پورے اظہار سے موجود ہوتا ہے۔
پھر اُس کے لیے مندر,مسجد, کلیسا یا حرم سب ایک سا ہے۔ اُس کےلیے ہر جگہ اللہ کی ذات ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
"بھگوان مندر میں رکھی مُورَت میں نہیں بلکہ پُجاری کے دل میں ہوتا ہے۔"
اسی لیے بابا بُھلّے شاہ رح فرماتے ہیں کہ
"اﺳﺎﮞ ﻋﺸﻖ ﻧﻤﺎﺯ ﺟﺪﻭﮞ ﻧﯿﺘﯽ ﺍﮮ ," ﺳﺎﻧﻮﮞ ﺑﮭﻞ ﮔﺌﮯ ﻣﻨﺪﺭ ﻣﺴﯿﺘﯽ ﺍﮮ ," ﻣﻼﺀ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﮮ ﻋﻠﻢ ﮐﺘﺎﺑﺎﮞ ﺩﺍ ," ﺍﯾوﯾﮟ ﭼﺎﯾﺎ ﺍﯼ ﺑﺎر ﻋﺬﺍﺑﺎﮞ ﺩﺍ ,
" ﻭﺿﻮ ﮐﺮ ﻟﮯ ﺷﻮﻕ ﺷﺮﺍﺑﺎﮞ ﺩﺍ ," ﺗﯿﺮﮮ ﺍﻧﺪﺭ ﺑﺎﮬﺮ پلیتی ﺍﮮ ,
"ﺗﯿﮑوں ﮐﻌﺒﮯ ﺩﮮ ﻭﭺ پیا ﻧﻮﺭ ﺩﺳﮯ
"ﺳﺎﮈﮮ ﺑﺘﺨﺎﻧﮯ ﻭﭺ حضوﺭ ﻭﺳﮯ ," ﺳﺎﺗﮭﻮﮞ ﻧﯿﮍﮮ ﺗﯿﮑوں ﺩﻭﺭ ﻭﺳﮯ ,"
ﺗﯿﮉﯼ ﻧﯿﺖ ﻭﭺ ﺑﺪﻧﯿﺘﯽ ﺍﮮ ,
"اﺳﺎﮞ ﻋﺸﻖ ﻧﻤﺎﺯ ﺟﺪﻭﮞ ﻧﯿﺘﯽ ﺍﮮ ," ﺳﺎﻧﻮﮞ ﺑﮭﻞ ﮔﺌﮯ ﻣﻨﺪﺭ ﻣﺴﯿﺘﯽ ﺍﮮ ,
نمازِ عشق قرآن کا اصل پیغام ہے۔ نمازِ عشق علم الکتاب نہیں بلکہ علم الحجاب ہے۔
یہ علم حاصل کیا جائے کہ 'حجاب' درحقیقت کیا شے ہے۔
نمازِ عشق خود کی تلاش ہے, خودی کی تلاش ہے۔
نمازِ عشق رٹی رٹائی آیات پڑھنے اور اٹھنے بیٹھنے کا نام نہیں ہے۔
نمازِ عشق ہر وقت کی ادا ہے۔
اِس کی قضا نہیں ہے۔
ہر خیال, گمان, سوچ, ارادہ, اللہ کے لیے ہو۔
گناہ, ثواب, اجر و عذاب, سب اُسی کے قرب و وصال سے منسوب ہو۔
اسی کو 'عشق نماز' کہا جاتا ہے کہ معشوق سب کچھ ہو جائے اور عاشق کچھ بھی نہ رہے۔
ایسی عبادت گاہ جس میں معبودِ حق پورے اظہار سے موجود ہوتا ہے۔
پھر اُس کے لیے مندر,مسجد, کلیسا یا حرم سب ایک سا ہے۔ اُس کےلیے ہر جگہ اللہ کی ذات ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
"بھگوان مندر میں رکھی مُورَت میں نہیں بلکہ پُجاری کے دل میں ہوتا ہے۔"
اسی لیے بابا بُھلّے شاہ رح فرماتے ہیں کہ
"اﺳﺎﮞ ﻋﺸﻖ ﻧﻤﺎﺯ ﺟﺪﻭﮞ ﻧﯿﺘﯽ ﺍﮮ ," ﺳﺎﻧﻮﮞ ﺑﮭﻞ ﮔﺌﮯ ﻣﻨﺪﺭ ﻣﺴﯿﺘﯽ ﺍﮮ ," ﻣﻼﺀ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﮮ ﻋﻠﻢ ﮐﺘﺎﺑﺎﮞ ﺩﺍ ," ﺍﯾوﯾﮟ ﭼﺎﯾﺎ ﺍﯼ ﺑﺎر ﻋﺬﺍﺑﺎﮞ ﺩﺍ ,
" ﻭﺿﻮ ﮐﺮ ﻟﮯ ﺷﻮﻕ ﺷﺮﺍﺑﺎﮞ ﺩﺍ ," ﺗﯿﺮﮮ ﺍﻧﺪﺭ ﺑﺎﮬﺮ پلیتی ﺍﮮ ,
"ﺗﯿﮑوں ﮐﻌﺒﮯ ﺩﮮ ﻭﭺ پیا ﻧﻮﺭ ﺩﺳﮯ
"ﺳﺎﮈﮮ ﺑﺘﺨﺎﻧﮯ ﻭﭺ حضوﺭ ﻭﺳﮯ ," ﺳﺎﺗﮭﻮﮞ ﻧﯿﮍﮮ ﺗﯿﮑوں ﺩﻭﺭ ﻭﺳﮯ ,"
ﺗﯿﮉﯼ ﻧﯿﺖ ﻭﭺ ﺑﺪﻧﯿﺘﯽ ﺍﮮ ,
"اﺳﺎﮞ ﻋﺸﻖ ﻧﻤﺎﺯ ﺟﺪﻭﮞ ﻧﯿﺘﯽ ﺍﮮ ," ﺳﺎﻧﻮﮞ ﺑﮭﻞ ﮔﺌﮯ ﻣﻨﺪﺭ ﻣﺴﯿﺘﯽ ﺍﮮ ,
نمازِ عشق قرآن کا اصل پیغام ہے۔ نمازِ عشق علم الکتاب نہیں بلکہ علم الحجاب ہے۔
یہ علم حاصل کیا جائے کہ 'حجاب' درحقیقت کیا شے ہے۔
نمازِ عشق خود کی تلاش ہے, خودی کی تلاش ہے۔
نمازِ عشق رٹی رٹائی آیات پڑھنے اور اٹھنے بیٹھنے کا نام نہیں ہے۔
نمازِ عشق ہر وقت کی ادا ہے۔
اِس کی قضا نہیں ہے۔
ہر خیال, گمان, سوچ, ارادہ, اللہ کے لیے ہو۔
گناہ, ثواب, اجر و عذاب, سب اُسی کے قرب و وصال سے منسوب ہو۔
اسی کو 'عشق نماز' کہا جاتا ہے کہ معشوق سب کچھ ہو جائے اور عاشق کچھ بھی نہ رہے۔
Comments
Post a Comment