محبّت کے 40 اصول از شمس تبریز

- ا31_اگر تم اپنا ایمان مضبوط کرنا چاہتے ہو تو اسکے لئے تمہیں اپنے اندر کی سختی دور کرنا ہوگی۔ چٹان کی طرح مضبوط ایمان کیلئے کسی پرندے کے پروں سے بھی زیادہ نرم دل درکار ہے۔ زندگی میں بیماریاں، حادثات ، نقصان ، تمناؤں کا ٹوٹنا اور اس قسم کے کئی دیگر معاملات ہمارے ساتھ اسی لئے پیش آتے ہیں تاکہ ہمیں رقتِ قلب عطا کریں، ہمیں خودغرضیوں سے نکالیں، نکتہ چینی کے رویے تبدیل کریں اور ہمیں کشادہ دلی سکھائیں۔ کچھ لوگ تو سبق سیکھ کر نرم ہوجاتے ہیں اور کچھ لوگ پہلے سے بھی زیادہ سخت مزاج اور تلخ ہو جاتے ہیں۔ حق تعالیٰ کے قریب ہونے کیلئے ضروری ہے کہ ہمارے قلوب اتنے کشادہ ہوں کہ تمام انسانیت اس میں سما سکے اور اسکے بعد بھی ان میں مزید محبت کی گنجائش باقی رہے۔


32- کوئی امام، کوئی پادری، کوئی ربی اور اخلاقی و مذہبی قائدین میں سے کوئی بھی تمہارے اور تمہارے رب کے بیچ حائل نہیں ہونا چاہئیے۔ حتیٰ کہ تمہارا ایمان اور تمہارا روحانی مرشد بھی نہیں ۔ اپنے اقدار اور اصولوں پر ضرور یقین رکھو، لیکن انکو دوسروں پر مسلط مت کرو۔اگر تم لوگوں کے دلوں کو توڑتے رہتے ہو، تو کوئی بھی مذہبی فریضہ انجام دینا تمہارے لئے سود مند نہیں ۔ ہر قسم کی بت پرستی سے دور رہو کیونکہ یہ تمہاری روحانی بینائی کو دھندلا دے گی۔ صرف اپنے رب کو اپنا مرشدِ حقیقی سمجھو۔ علم اورمعرفت ضرور حاصل کرو، لیکن ان علوم و معارف کو اپنی زندگی کا مقصد مت بناؤ۔


33- اس دنیا میں جہاں ہر کوئی کسی نہ کسی مقام پر پہنچنے اور کچھ نہ کچھ بننے کی جدو جہد کرتا ہے، حالانکہ یہ سب کچھ ایک دن اسے یہیں چھوڑنا پڑجاتا ہے، ایسے میں تم صرف اور صرف نایافت اور نیستی کو اپنا مقصد قرار دو۔ زندگی میں اتنے سبک بن جاؤ جتنا کہ صفر کا ہندسہ ہوتا ہے۔ ہم ایک برتن کی طرح ہیں۔ برتن پر خواہ کتنے ہی نقش و نگار کیوں نہ ہوں، لیکن اسکا کارآمد ہونا صرف اس خلا کی وجہ سے ہے جو اسکے اندر ہے، یہ خلا ہی اسے برتن بناتا ہے اور یہی نایافت اور خلا ہمیں بھی درست رکھتے ہیں۔ کسی مقصد کا حصول ہمیں متحرک نہیں رکھتا ، بلکہ یہی خالی پن کا شعور ہے جو ہمیں رواں دواں رکھتا ہے۔


34- سرِ تسلیم خم کرنے اور راضی برضا رہنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم بے عمل ہوکر عضوِ معطل ہوجائیں اور نہ ہی یہ جبریت (Fatalism) یا تعطیل (Capitulation)ہے۔ بلکہ یہ تو اسکے بالکل برعکس ہے۔ اصل قوت تسلیم و رضا میں ہے، ایسی قوت جو ہمارے اندر سے پھوٹتی ہے۔ وہ لوگ جو زندگی کی الوہی(Divine) حقیقت کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیتے ہیں، و ہ ایسے دائمی سکون اور سکینت میں رہتے ہیں کہ اگر سارا جہان موج در موج فتنوں میں مبتلا ہوجائے تب بھی اس سکون میں کوئی خلل نہیں پڑتا۔


35- اس دنیا میں جہاں ہم رہ رہے ہیں، یکسانیت اور ہمواریت ہمیں آگے لیکر نہیں جاتی، بلکہ مخالفت اور تضاد آگے لیکر جاتا ہے۔ اور دنیامین جتنے بھی متضاد امور ہیں، وہ سب ہم میں سے ہر ایک کے اندر بھی پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ ایک مومن کیلئے ضروری ہے کہ اپنے اندر کے کافر سے ضرور ملے۔ اور ایک کافر کو بھی اپنے اندر کے خاموش مومن کو دریافت کرنا چاہئیے۔ ایمان ایک تدریجی سفر ہے جسکے لئے اسکے مخالف یعنی بے یقینی کا ہونا لازم ہے تاوقتیکہ انسان، انسانِ کامل کے مقام تک جاپہنچے۔


36- دنیا عمل اور اسکے ردعمل کے اصول پر قائم ہے۔ نیکی کا ایک قطرہ یا برائی کا ایک ذرہ بھی اپنا ردعمل یا نتیجہ پیدا کئے بغیر نہیں رہتے۔ لوگوں کی سازشوں، دھوکہ دہیوں اور چالبازیوں کا خوف مت کھاؤ ۔ اگر کوئی تمہارے لئے جال تیار کر رہا ہے تو یاد رکھو کہ اللہ بھی خیر الماکرین ہے اور سب سےاچھامنصوبہ ساز ہے۔ ایک پتا بھی اسکے علم اور اجازت کے بغیر نہیں ہلتا۔ بس اللہ پر سادگی کے ساتھ اور پوری طرح یقین رکھو۔ وہ جو کچھ بھی کرتا ہے، بہت خوبصورت طریقے سے کرتا ہے۔


37- خدا بہت باریک بین اور بڑا ہی کاریگر گھڑی ساز ہے۔ اتنا درست کہ زمین پر ہر چیز اپنے مقررہ وقت پر وقوع پذیر ہوتی ہے۔، نہ ایک لمحہ وقت سے پہلے اور نہ ایک لمحہ تاخیر سے۔ اور یہ عظیم گھڑی، بغیر کسی استثناء کے، سبھی کیلئے بالکل ٹھیک اور درست طور پر کام کرتی ہے۔ ہر ایک کیلئے محبت اور موت کا ایک لمحہ مقرر ہے۔


38- کوئی حرج نہیں اگر زندگی کے کسی بھی مرحلے میں ہم اپنے آپ سے یہ سوال پوچھیں کہ" کیا میں اپنا طرزِ زندگی اور اپنی روش بدلنے کیلئے تیار ہوں؟ کیا میں اپنا آپ بدلنے کیلئے تیار ہوں؟"۔ اگر دنیا میں ہماری زندگی کا ایک دن بھی گزرے ہوئے دن کے مساوی گذرے تو بڑی حسرت کا مقام ہے۔ ہر لمحہ ، ہر آن ، اورہر سانس کے ساتھ ہمیں اپنی تجدید کرتے رہنا چاہئیے،نیاجنم لیتے رہنا چاہئیے۔ اور نیا جنم لینے کیلئے ایک ہی طریقہ ہے۔۔۔موت سے پہلے مرجانا۔


39- جزو تبدیل ہوتا رہتا ہے، لیکن اسکا کُل ویسے کا ویسا ہی رہتا ہے۔ دنیا سے جب بھی کوئی چور ڈاکو رخصت ہوتا ہے، اسکی جگہ لینے کیلئے ایک نیا شخص پیدا کردیا جاتا ہے۔ اور ہر صالح اور ولی کے رخصت ہونے پر کوئی دوسرا صالح اور ولی اسکی جگہ سنبھال لیتا ہے۔ اس طریقے سے بیک وقت ہر شئے تبدیل ہوتی جاتی ہے لیکن مجموعی حقیقت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔


40- محبت کے بغیر زندگی بے معنی ہے۔ مت سوچو کہ مجھے کس قسم کی محبت کی تلاش ہے؟ روحانی یا جسمانی، ملکوتی یا ناسوتی، مشرقی یا مغربی۔۔۔ محبت کی یہ تقسیم مزید تقسیم پیدا کرتی ہے۔ محبت کا کوئی عنوان نہیں ہوتا ، نہ ہی کوئی مخصوص تعریف (Definition) ۔ یہ تو ایک سادہ، اور خالص چیز ہے بس۔ محبت آبِ حیات بھی ہے، اور آتش کی روح بھی ہے۔ جب آتش آب سے محبت کرتی ہے، تو کائنات ایک مختلف روپ اور نئےانداز میں ظہور پذیر ہوجاتی ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

سرکار غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی کرامات

تذکرہ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز رحمتہ الله علیہ

حضور باقی باالله کسے کہتے ہیں ؟