محبّت کے 40 اصول از شمس تبریز

- اُ21_اس نے ہم سب کواپنی صورت پر پیدا کیا ہے لیکن اسکے باوجود ہم سب ایک دوسرے سے مختلف اور یکتا و ممتاز ہیں۔ کوئی بھی دو انسان ایک جیسے نہیں۔ کوئی بھی دو دل یکساں طور پر نہیں دھڑکتے۔ اگر وہ چاہتا تو کہ سب لوگ ایک جیسے ہوجائیں، تو وہ انکو ایک جیسا ہی بناتا۔ چنانچہ اب ان اختلافات کی توہین و تنقیص کرنا اور اپنے افکار کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرنا دراصل پروردگارِ عالم کی قضا و قدر اور بلند پایہ حکمت کی توہین کے مترادف ہے۔

22- جب اسکا سچا چاہنے والا کبھی میکدے میں جا پہنچے، تو وہ میکدہ اسکے لئے محراب و مصلے کی صورت اختیار کرلیتا ہے، لیکن اگر کوئی بہکا ہوا مئے خوار مسجد میں بھی چلا جائے تو وہ اسکے لئے میخانہ بن جاتی ہے۔ جو کچھ بھی ہم کرتے ہیں اس میں اصل کردار تو ہمارے دل کا ہے، ہمارے اندر کا ہے ، ظاہر کا نہیں۔ صوفی لوگوں کو انکے حلئے اور انکی وضع قطع سے نہیں جانچتے۔ جب ایک صوفی کسی پر اپنی نگاہ جماتا ہے تو وہ دراصل اپنی دونوں آنکھوں کو بند کرچکا ہوتا ہے اور ایک تیسری آنکھ سے(جو اسکے قلب میں ہے) اس منظر کے اندر کا جائزہ لے رہا ہوتا ہے۔

23- زندگی تو ایک ادھار کی مانند ناپائیدار ہے اور اصل حقیقت کا ایک دھندلا سا خاکہ اور نقل۔ صرف بچے ہی اصل حقیقت کی بجائے کھلونوں سے بہلتے ہیں۔ لیکن اسکے باوجود، لوگ کھلونوں پر فریفتہ ہوتے ہیں یا بے قدری سے انہیں توڑ ڈالتے ہیں۔ اس زندگی میں ہر قسم کی انتہاؤں سے دور رہو، کیونکہ انتہاپسندی تمہارے اندرونی توازن کو بگاڑ دیتی ہے۔ صوفی اپنے رویوں میں انتہا پسند نہیں ہوتے بلکہ متوازن اور نرم ہوتے ہیں۔

24- پروردگار کی سلطنت میں انسان کو بہت خاص مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ اللہ نے کہا ، " اور میں نے اسکے اندر اپنی روح میں سے پھونک دیا"۔ ہم میں سے ہر ایک کو اس قابلیت کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے کہ وہ اسکا خلیفہ بن سکے۔ اپنے آپ سے پوچھو کہ کیا تمہارے اعمال اسکے خلیفہ جیسے ہیں؟ یاد رکھو کہ ہم پر لازم ہے کہ ہم اس رحمانی روح کو (جو ہم میں پھونکی گئی ہے) کو اپنے اندر دریافت کریں ، پہچانیں اور اسکے ساتھ جئیں۔

25- جنت اور دوزخ کے بارے میں فکرمند رہنا چھوڑدو کیونکہ جنت اور دوزخ یہیں ہیں اسی لمحہءِ موجود میں۔ جب بھی ہم محبت محسوس کرتے ہیں، جنت کا ایک زینہ طے کرتے ہیں اور جب بھی نفرت ، حسد اور جھگرے میں پڑتے ہیں، دوزخ کی لپٹوں کی زد میں ہوتے ہیں۔ کیا اس سے بھی بد تر کوئی دوزخ ہوسکتا ہے جب کوئی شخص اپنے دل کی گہرائیوں میں یہ احساس پائے کہ اس سے کوئی بیحد غلط اور برا کام سرزد ہوگیا ہے۔ اس شخص سے پوچھ کردیکھو وہ تمہیں بتائے گا کہ دوزخ کسے کہتے ہیں۔ اور کیا اس سے بڑی بھی کوئی جنت ہوسکتی ہے جب کسی شخص پر خاص لمحات میں وہ سکینت نازل ہوتی ہے جب اس پر کائنات کے دریچے کشادہ ہوتے ہیں اور انسان اپنے رب کے ساتھ قرب کی حالت میں ابدیت کے اسرار سے ہمکنار ہوتا ہے؟ پوچھو اس شخص سے، وہ تمہیں بتائے گا کہ جنت کیا ہوتی ہے۔

26-کائنات ایک وجودِ واحد ہے۔ یہاں ہر کوئی اپنے اپنے واقعات کے غیر مرئی دھاگوں سے ایک دوسرے کے ساتھ لپٹا ہوا ہے۔ ہم سب جانے انجانے میں ایک خاموش مکالمے کا حصہ ہیں۔ کسی کو دکھ نہ دو، نرمی اور شفقت کا برتاؤ رکھو، کسی کی پیٹھ پیچھ اسکی برائی مت کرو خواہ ایک بے ضرر سا جملہ ہی کیوں نہ ہو۔ الفاظ جو ایک بار ہماری زبانوں سے نکل آتے ہیں، وہ کبھی فنا نہیں ہوتے بلکہ ایک لامحدود وسعت میں ہمیشہ کیلئے محفوظ ہوجاتے ہیں اور اپنے مقرر وقت میں واپس ہم تک آن پہنچتے ہیں۔ بالآخر،کسی بھی آدمی کی تکلیف، ہم سب کو ایک اجتماعی دکھ میں مبتلا کرجائے گی اورکسی بھی آدمی کی خوشی ہم سب کے ہونٹوں پر مسکان کا باعث بنے گی۔

27- یہ دنیا اس برفانی پہاڑ کی طرح ہے جہان بلند کی گئی ہر آواز، پہاڑوں سے ٹکرا کر بازگشت کی صورت میں واپس ہم تم پہنچتی ہے۔ جب بھی تم کوئی اچھی یا بری بات کرو گے، تم تک واپس ضرور پلٹ کر آئے گی۔ چنانچہ اب اگر تم کسی ایسے شخص کیلئے برے کلمات منہ سے نکالو، جو ہر وقت تمہارا برا سوچتا رہتا ہے، تو یہ اس معاملے کو اور بھی گھمبیر بنادے گا اور تم منفی قوتوں کے ایک نہ ختم ہونے والے چکر میں گھومتے رہو گے۔ بجائے اسکے کہ تم اسکے لئے کچھ برا کہو، چالیس دن تک اسکے لئے اچھا سوچو اور اچھی بات منہ سے نکالو، تم دیکھنا کہ چالیس دن بعد ہر شئے مختلف محسوس ہوگی، کیونکہ تم پہلے جیسے نہیں رہے اور اندر سے تبدیل ہوگئے۔

28- ماضی ایک تعبیر ہے ایک نقطہ نظر ہے، جبکہ مستقبل مایا (Illusion) ہے ، ایک سراب ہے۔ دنیا ایک خطِ مستقیم کی شکل مین وقت کے دھارے میں سے نہیں گذرتی جو ماضی سے مستقبل کی طرف جا رہا ہو، بلکہ وقت ہمارے اندر سے بتدریج پھیلتے ہوئی لامتناہی قوسوں (Spirals) کی صورت میں گذرتا ہے۔ ابدیت لامحدود وقت کو نہیں بلکہ وقت سے ماورا ہونے کا نام ہے۔ اگر تم ابدی روشنی کے حامل ہونا چاہتے ہو تو ماضی اور مستقبل کو اپنے ذہن سے نکال دو اور فقط لمحہءِ موجود میں باقی رہو۔ یہ لمحہءِ موجود ہی سب کچھ تھا اور سب کچھ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔


29- تقدیر کا یہ مطلب نہیں کہ تمہاری زندگی کو مکمل طور پر باندھ کر رکھ دیا گیا ہے۔ ہر بات کو مقدر پر چھوڑ دینا اور کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی کوئی کوشش نہ کرنا ،محض جہالت کی علامت ہے۔ کائناتی موسیقی ہر طرف سے پھوٹ رہی ہے اور اسکے چالیس مختلف درجات ہیں۔ تمہارا مقدر وہ درجہ ہے جس پر تم اپنا ساز بجا رہے ہو۔ ہوسکتا ہے کہ تمہارا ساز تبدیل نہ کیا جاسکے، لیکن اس ساز سے جو نغمہ اور جو دُھن تم نکالتے ہو اسکا انحصار صرف اور صرف تم پر ہے۔


30- سچا صوفی ایسا فرد ہے کہ اگر اس پر کوئی ناحق تہمت لگائی جائے، اور ہر سمت سے اس پر ملامت کی بوچھاڑ ہو، تب بھی وہ صبر کے ساتھ یہ سب جھیلتا ہے اور تنقید کرنے والوں کے خلاف ایک لفظ منہ سے نہیں نکالتا۔ وہ الزام کے جواب میں الزام نہیں لگاتا۔ اورکوئی اسکا مخالف اور دشمن حتیٰ کہ "غیر" ہو بھی کیسےسکتا ہے جب اس کے نزدیک کسی غیر کا کوئی وجود ہی نہیں۔ وہ تو خود اپنے نفس سے معدوم ہے، چنانچہ وہ کسطرح کسی کو اپنا دشمن یا مخالف سمجھے جب وہاں صرف اور صرف ایک ہی واحد ذات کی جلوہ نمائی ہے؟

Comments

Popular posts from this blog

سرکار غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی کرامات

تذکرہ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز رحمتہ الله علیہ

حضور باقی باالله کسے کہتے ہیں ؟